پوری دْنیا کی نگاہیں پاکستان کی طرف تھیں، بھارت ایٹمی دھماکے کر چکا تھا اور دْنیا یہ سمجھ رہی تھی کہ اب کسی بھی وقت پاکستان ایٹمی دھماکہ کر کے ان ممالک کی فہرست میں شامل ہونے والا ہے، جن کے پاس ”ایٹم بم” ہے۔ چاغی مرکزِ نگاہ تھا۔ ہر خاص و عام کو ان تیاریوں کا اندازہ تھا جو کسی بھی ایسے بڑے واقعے کیلئے ضروری ہوا کرتی ہیں۔ دالبندین کا بازار، اس کے گردونواح کے پہاڑ، اور وسیع ریگستان، سیکورٹی فورسز کے جوانوں میں گھرے ہوئے تھے۔ راس کوہ کا پہاڑ کئی سال پہلے ہی سے مقامی لوگوں کیلئے ایک ”نوگو ایریا ” تھا۔ میں وہاں گذشتہ ڈیڑھ سال سے ڈپٹی کمشنر تھا اور جب کبھی اس علاقے سے گزر ہوتا تو میری جیپ کو بھی دْور ہی سے روک لیا جاتا۔ عالمی دبائو تو حکومت کی سطح پر ہو گا، لیکن عالمی میڈیا بھی رائے عامہ کا ایک دبائو تخلیق کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ایٹم بم کو انسانیت دْشمن قرار دیتے ہوئے جاپان کے شہروں ”ہیرو شیما” اور ”ناگا ساکی” کی مثال دی جاتی تھی اور عالمی طاقتوں نے جاپان ہی کو خاص طور پر اس معاملے میں پاکستان کو قائل کرنے کیلئے کہا تھا۔ جاپانی سفیر اپنے ساتھ چند اہم سرکاری افراد کو لے کر کوئٹہ آیا اور وہاں ”ہیرو شیما” اور ”ناگا ساکی” کے حوالے سے بنائی جانے والی ایسی فلمیں دکھائی گئیں جو المناک تھیں اور جن کو دیکھتے ہوئے کوئی اپنے آنسو ضبط نہیں کر سکتا تھا۔ روٹری کلب جیسے اداروں کے تعاون سے لیکچر ہوئے۔ چاغی کا خصوصی دورہ بھی کیا گیا۔ اختتام پر کھانے کی میز پر بیٹھے ہوئے میں نے جاپانی سفیر اور اس کے ساتھیوں سے پوچھا کہ اگر 1945ء میں جاپان کے پاس ایٹم بم ہوتا تو کیا امریکہ ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرانے کی جرات کر سکتا تھا۔ جاپانی سفیر ایک دَم چونکا اور اس کا جواب حقیقت پسندانہ تھا اور وہ یہ کہہ اْٹھا، ”ہر گز نہیں”۔ میں نے اس کے ساتھ ہونے والا یہ مکالمہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بتایا تو جیسے کوئی شخص خوشی میں ایڑیوں پر گھوم جاتا ہے، ویسے ہی وہ بے ساختہ خوش ہوئے۔ ان ملاقاتوں کے بعد سے ڈاکٹر صاحب سے ایک ایسا تعلق خاطر قائم ہوا کہ انہوں نے ہمیشہ مجھ عاجز اور حقیر شخص پر عنایات ہی کیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک ایسی شخصیت تھے کہ جنہیں صحیح معنوں میں سیدالانبیائۖ کی زبان میں ”صاحبِ نعمت” کہا جا سکتا ہے۔ آپۖ نے فرمایا ”ہر صاحبِ نعمت کے حاسد ہوتے ہیں” (مفہوم حدیث)۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے محبت کا عالم تو ان کے صاحبِ نعمت ہونے پر دلیل کرتا تھا، لیکن ان سے حسد کرنے والوں کا بھی شمار کوئی کم نہ تھا اور یہ سب کے سب ایسے لوگ تھے جنہیں خود قدرت نے بہت نوازا تھا۔ دھماکے کے فوراً بعد ٹیلی ویژن والے اس بات پر حیرت میں گم تھے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے انہیں خاص طور پر ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے انٹرویو نشر کرنے اور انہیں زیادہ اہمیت دینے کی ہدایات کیوں دی ہیں۔ نفسیاتی طور پر کس قدر کمزور ہوتے ہیںایسے رہنما جنہیں عزت و مقام بھی میسر ہوتا ہے مگر وہ ہمیشہ ”صاحبانِ نعمت” سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان یہ کہ مغرب جن کی زندگی کا دْشمن تھا اور گذشتہ پندرہ سالوں سے ان کی تاک میں تھا، اور جو عالمی میڈیا کی منفی فہرست میں سب سے نمایاں تھے، ایسے شخص کی وطن میں عزت خود بخود ہو جاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں کسی دوسرے کا چراغ جلانا ناممکن تھا۔ پاکستان کا بچہ بچہ اس حقیقت سے واقف تھا کہ ایٹمی پروگرام کا وہی ایک ”ہیرو” ہے۔ لوگوں کے خیال کو تقویت اس بات سے ملتی تھی کہ پورا عالمِ کفر عبدالقدیر خان سے نفرت کرتا تھا لیکن پورا عالمِ اسلام ان سے محبت کرتا تھا۔ ایٹمی دھماکے کے چند ہفتوں بعد مجھے ایشین ڈویلپمنٹ بنک میں ایک میٹنگ کے سلسلے میں منیلا جانا پڑا۔ وہاں میری ملاقات ایک امریکی مسلمان سے ہوئی جو صومالیہ میں مسلمانوں کے جذبہ صبر و رضا کو دیکھ کر ایسا مسلمان ہوا تھا کہ تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر تھا۔ اس کے گھر کھانے پر گیا تو اس کی بیٹی کی سالگرہ تھی، لیکن کوئی تقریب نہیں تھی۔ میں نے حیران ہوکر پوچھا کہ ”ایسا کیوں ؟ تو بیٹی نے جواب دیا، میرا باپ جب بھی مجھ سے خوش ہوتا ہے مجھے ڈھیروں تحفے لا کر دیتا ہے پھر سالگرہ کیوں۔ ایسا امریکی جو عرفِ عام میں “God” نہیں ”اللہ” کہے، ہیلو کی جگہ ”السلام علیکم” کہے اور تالیاں بجانے کے بجائے ”ماشاء اللہ” کہے۔ اس نے کہا کہ جب پاکستان نے دھماکہ کیا تو میں، میری بیوی اور بیٹی فرطِ جذبات میں رقص کرتے ہوئے سڑک پر نکل آئے اور ہمیں احساس تک نہ ہوا کہ ہم عوام کے درمیان یہ حرکت کر رہے ہیں۔ مجھے کہنے لگا اگر کبھی ڈاکٹر قدیر میری قوم ”امریکیوں” کے ہتھے چڑھ جاتا تو اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے۔ پورے عالمِ اسلام میں کوئی ملک، شہر ایسا نہ تھا جس نے پاکستان کے ایٹمی دھماکوں پر خوشی نہ منائی ہو۔ ڈاکٹر صاحب کے انتقال کے بعد اسرائیل کے اخبار ہیرٹز “Haretz” نے لکھا ہے کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی ”موساد” کے سربراہ شہاتائی شاوت “Shahatai Shavit” نے بتایا کہ ”موساد” نے بار بار کوشش کی کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو قتل کیا جائے یا پکڑا جائے لیکن ہم ناکام رہے۔ گیارہ ستمبر 2001ء کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے واقعہ سے قبل بے شمار ایسے شواہد ملتے ہیں کہ جیسے اس واقعہ کی کافی عرصہ پہلے سے منصوبہ بندی کی جا رہی تھی۔ باقی دیگر واقعات پر بحث کو ایک طرف رکھتے ہوئے، صرف پرویز مشرف جیسے مذہب بیزار، سیکولر، لبرل شخص کے اقتدار پر قبضہ کرنے کی اور کوئی توجیہہ نہیں کی جا سکتی، سوائے اس کے کہ افغانستان پر امریکی حملے کے وقت انہیں ایسے ہی حکمران کی ضرورت تھی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ گیارہ ستمبر سے چند ماہ پہلے ہی پرویز مشرف نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے علیحدہ کر کے ان کے خلاف ایک منفی پروپیگنڈے کا آغاز کر دیا تھا۔ گیارہ ستمبر کے بعد تو پورا سٹیج تیار تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے خلاف ایٹمی ٹیکنالوجی ایران، لیبیاء اور کوریا کو دینے کا الزام لگایا گیا۔ ایران کے جس ایٹمی سائنس دان محسن فرخی زادہ نے سینٹری فیوجز پکڑے جانے پر فوراً ڈاکٹر قدیر خان کا نام لے کر اسرائیلی خواہش کی تکمیل کی تھی، اس کا انجام یہ ہوا کہ اسے 27 نومبر 2020ء کو اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ”موساد” نے ہی ہلاک کیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خلاف دوسری گواہی لیبیاء کے کرنل قذافی کی تھی۔ قذافی نے عراق پر حملے کے بعد خود کو خطرے میں محسوس کیا تو سی آئی اے اور ایم آئی 6 کے ساتھ گفتگو کا آغاز کیا اور ان کو بتایا کہ وہ اپنا ایٹمی پروگرام ختم کرنے کو تیار ہے اگر عالمی طاقتیں لیبیاء کی حفاظت کا ذمہ لے لیں۔ یوں قذافی نے تمام الزام ڈاکٹر عبدالقدیر کے سر پر دھر دیئے اور اپنی قوم اور اپنے لئے زندگی کی مہلت مانگ لی۔ 19 دسمبر 2003ء کو قذافی اور ٹونی بلیئر نے مشترکہ پریس کانفرنس میں عہدو پیمان کئے لیکن قذافی کا بھی وہی حشر ہوا جو ایرانی ایٹمی سائنس دان محسن فرخی زادہ کا ہوا تھا۔ بلکہ قذافی کو تو گلیوں میں ذِلّت کے ساتھ گھسیٹ کر موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ ڈاکٹر قدیر نے ان الزامات کی بوچھاڑ کے دوران ایک بار پھر اس محسن کش قوم پر احسان کیا اور سب الزام اپنے سر لے کر خاموشی سے اپنے گھر میں جا بیٹھے، جہاں موت تک انہوں نے بیس سال نظر بندی میں گزارے۔ ڈاکٹر قدیر کے جنازے میں عوام تو جوق در جوق آئے لیکن ”بڑے ” لوگ دو وجہ سے نہیں آئے، ایک یہ کہ حسد کی آگ نے انہیں ایسا نہیں کرنے دیا اور دوسرا یہ کہ اگر امریکہ یا عالمی طاقتوں نے ان کی قدیر خان سے اس قدر محبت دیکھ لی تو کہیں وہ سب امریکی نظروں میں ”بلیک لسٹ” نہ ہو جائیں۔ قدیر خان کے خلاف جن لوگوں نے سازش کی، اللہ کی پکڑ سے نہ بچ سکے۔ اس لئے کہ میرا ایمان ہے کہ پاکستان ایک معجزے کے طور پر وجود میں آیا تھا اور اس کا ایٹمی پروگرام بھی اس معجزے کے تحفظ کیلئے ایک اور معجزے سے کم نہیں ہے اور معجزے جن لوگوں کے ہاتھوں وقوع پذیر ہوتے ہیں وہ اللہ کی نشانیاں ہوتے ہیں۔ اللہ کو بہت پیارے ہوتے ہیں۔ ان کو چھیڑنے والوں کو اللہ عبرت کا نشان بنا دیتا ہے۔