عظیم اور بلند پایہ ڈرامہ نگار خواجہ معین الدین کی باتیں کرتے ان کی فنی خدمات کی یادیں تازہ کرنے کے لئے آج ہم سب جمع ہیں۔ مگر میری سمع خراشی کا مقصد کچھ اور ہے۔ مجھے ڈرامہ نگار خواجہ معین الدین کے بارے میں کچھ عرض کرنا نہیں ہے۔ میں تو اپنے دوست معین کی بات کروں گا۔ میری نظر میں معین کا سب سے بڑا وصف، سب سے بڑا کمال یہی تھا اور ہے کہ وہ میرا دوست تھا۔ انتیس سال پرانا دوست۔ کہتے ہیں کہ دوستی بھی شراب کی طرح ہے کہ جتنی پرانی ہوتی ہے اتنی ہی نشہ آور ہوتی ہے۔ شراب کا تجربہ نہیں ہاں دوستی کا تجربہ ہے۔ معین کی دوستی کا۔ جب تک معین زندہ تھا ہفتوں بلکہ مہینوں اس سے ملاقات نہ ہوتی پھر بھی دل میں کوئی خلش کوئی بے چینی محسوس نہ ہوتی۔ بھروسہ تھا کہ جب بھی ملے گا معین، معین ہی رہے گا۔ مگر معین کے مر جانے کے عبد تو حالت ہی اور ہے۔
سوچتا ہوں کیا زندہ معین بھی میرے قلب اور ذہن پر اسی طرح چھایا ہوا تھا؟ ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو یہ دوسری بات ہے کہ مجھے اس کا احساس نہ ہوا ہو، اب احساس ہوتا ہے مگر اس احساس کی قدر کرنے والا نہیں رہا معین کو اپنا غم سنا کر بڑی تسلی ہوتی تھی۔ کیونکہ غمگساری معین کا مزاج تھا۔
ہرا ک کے درد دکھ سے اس کو رہتا تھا تھا سدا مطلب۔ ہوا ممکن تو باری کی نہیں تو غمگساری کی۔
معین کے ساتھ یاری بھی گئی اور غمگساری بھی وبنی وجہ ربک ذوالجلال و الاکرام
رمضان المبارک کی 9تاریخ تھی۔ رات معین اور احمدانی بھائی مرے گھر آئے۔ میں بیمار تھا وہ میری عیادت کو آئے تھے۔ گھنٹوں نشست رہی۔ بڑی باتیں ہوئیں۔ بیمار رہنا میری عادت ہے اور عیادت معین کا مزاج تھا۔ خود اپنی عیادت کی تکلیف اس نے دوسروں کو کم ہی دی۔
19رمضان المبارک کی رات کو میں معین کے گھر پہنچا۔ مگر عیادت کے لئے اپنے مزاج پرس کرنے والے اپنے غمگسار کے آخری دیدار کے لئے۔ اس رات معین کے بہت سے دوست جمع تھے۔ ہم رات بھر معین کے مکان کے ایک کمرے میں بیٹھے رہے۔ دوسرے کمرے میں معین ایک سفید چادر اوڑھے لیٹا تھا۔ اس نے نہ دوستوں کا استقبال کیانہ کسی سے بات کی۔ خود بات کرتا تو ایک طرف اس کے جو احباب وہاں جمع تھے معین نے تو ان کی گویائی بھی چھین لی تھی۔ صمدانی بھائی نے معین کے سنگ مزار پر علامہ اقبال کا یہ شعرکندہ کروایا
اے خوشا منجم کہ چوں درویش ویست
درچین عہدے خدا اندیش زیست
معین کے جاننے اور پہچاننے والے گواہی دیں گے کہ معین کی زندگی کی اس سے بہتر اور اس سے زیادہ جامع تفسیر کوئی اور نہیں ہو سکتی۔
1926ء میں انٹرمیڈیٹ میں معین اور میرا ساتھ ہوا۔ کالج یونین کے الیکشن ہو رہے تھے۔ ہم دونوں ایک ہی صدارتی امیدوار کے حامی تھے۔ اور یہی قدر مشترک ہماری دوستی کی بنیاد تھی۔ مگر اب سوچتا ہوں تو ہم دونوں میں کوئی قدر مشترک نہ تھی۔ وہ سب کچھ تھا اور میں کچھ بھی نہیں۔ یہ صرف معین کا ظرف تھا کہ جس نے انتیس سال تک اس دوستی کو نبھایا۔ اس طویل عرصے میں مجھے ہمیشہ اس بات پر فخر رہا کہ میں معین کا دوست ہوں۔ مجھے معین ہر بات پر فخر تھا۔ اس کی ہر صفت پر فخر تھا۔ مگر خود میں ان تیس برسوں میں معین کو کوئی ایسا موقع نہیں دیا کہ وہ مجھ پر فخر کرسکے میری دوستی پر فخر کر سکے۔ پھر بھی وہ میرا دوست رہا۔ اس نے مجھے دوست رکھا، اور مجھے ہمیشہ فخر رہے گا کہ معین نے مجھے دوست سمجھا۔ مجھے دوست رکھا
انٹرمیڈیٹ میں میرا اور معین کا ساتھ ہوا۔ چار سال تک ہم ایک ہی بنچ پر بیٹھے۔ ہم نئے نئے دوست بنے تھے کہ اسی زمانے میں معین کی کاپیوں میں ایک کاپی میرے ہاتھ لگی۔ معین اپنی کتابیں رکھ کر کہیں گیا تھا۔ میں وہ کاپی اٹھائی اور پڑھنا شروع کیا۔ اس میں وہ مضامین تھے جو معین نے دسویں جماعت میں لکھے تھے ۔ مضامین کیا تھے درد و الم کی کہانیاں تھیں۔ ہر مضمون پر مخدوم محی الدین احب نے سرخی سے واہ واہ اور سبحان اللہ لکھا تھا۔ دسویں جماعت میں یہ الم پسندی بڑے اچھنبے کی بات تھی۔ معین نے بتایا کہ جب وہ نویں جماعت میں پڑھتا تھا توا سے حسن نظامی مرحوم کی کتابیں پڑھنے کا موقع ملا۔ وہ کتابیں جن میں خواجہ حسن نظامی مرحوم نے عذر کی المناک داستانیں بیان کی ہیں۔ یہی کتابیں معین کی الم پسندی کا تمہید بنیں۔
معین ایک اوسطاً خوشحال گھرانے میں پیدا ہوا۔ ماں باپ کا اکلوتا بیٹا۔ منتوں مرادوں کی اولاد۔ والدین بڑے ہی خوش عقیدہ مسلمان تھے ۔ معین نے بتایا کہ بچپن ہی میں اس کے والد اسے بزرگوں کی درگاہوں پر لے جایا کرتے تھے۔ اس تربیت نے اسے اولیاء کرام سے بڑی گہری عقیدت بخش دی۔ بزرگان دین کی محبت اور عقیدت اور کچھ نہیں تورقت قلب ضرور عطا کرتی ہے اور معین کو تو یہ رقت ضرورت سے زیادہ ہی ملی تھی۔
خواجہ حسن نظام کے بعد معین کو نیاز فتح پوری کی تحریروں نے بہت زیادہ متاثر کیا۔ نیاز صاحب کی کتاب ”شہاب کی سرگزشت” سے وہ خاص طور پر متاثر تھا۔ اسی نے مجھ کو بھی وہ کتاب پڑھنے کو دی تھی۔ ہمارے کالج سے ایک رسالہ نکلتا تھا ”الموسی” مولوی سید محمد صاحب جو اردو کے لیکچرر بھی تھے اور ”الموسی” کے نگران اعلیٰ بھی۔ مولوی صاحب نے معین سے کہا کہ رسالے کے لئے کچھ لکھے۔ معین نے ایک افسانہ لکھا جس کا عنوان تھا ”تقدیر” یہ ایک المیہ تھا جو ہیرو اور ہیروئن دونوں کی المناک موت پر ختم ہوتا ہے۔ مولوی سید محمد صاب نے افسانہ پڑھا اور ایک دن کلاس میں معین سے کہا ”میاں آپ تو قتل عام کر دیا۔ کسی تو جینے دیتے” معین نے جواب دیا” مولوی صاحب مجبوری یہ تھی کہ اگر ایک کو بھی زندہ رکھتا تو اور لکھنا پڑتا۔” یہ ایک مزاحیہ تنقید کا مزاحیہ جواب سہی مگر میرے ناقص خیال میں یہ جواب معین کے ایک وصف کاآئینہ دار ہے کہ وہ اپنی تحریروں کا جواز تلاش کرنے کا قائل تھا۔ جو بات وہ سچے دل سے سوچتا وہی بے کم و کاست لکھ دیتا تھا اور میں اسی خلوص کو معین کا فن سمجھتا ہوں۔
اس الم پسندی کا نتیجہ تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ معین قنوطی ہو کر رہ جاتا۔ مگر بہادر یار جنگ نے اسے قنوطیت سے بچالیا۔ وہ بہادر یار جنگ کا عاشق تھا۔ ہر اس جلسے میں موجود ہوتا جہاں بہادر یار جنگ کی تقریر ہوتی۔ اس سلسلے میں معین نے مجھے ایک واقعہ سنایا۔ وہ دسویں جماعت میں تھا کہ اس کے والد کا انتقال ہو گیا۔ ماں باپ کے اکلوتے اور لاڈلے اور پھر ضرورت سے زیادہ حساس بیٹے پر بات کی موت نے کیا کچھ ستم نہ ڈھایا ہو گا۔
والد کے انتقال کے چار پانچ دن ہی گزرے تھے کہ معین کے احباب نے اسے میلاد النبی کے ایک جلسے میں گھسیٹ لے گئے۔ نواب بہادر یار جنگ سیرة پاک کے حوالے سے صبر و رضا کے موضوع پر تقریر کررہے تھے۔ معین کہتا تھا کہ مجھے تو بس ایسا محسوس ہوا کہ سارے مجمع میں صرف مجھ سے نواب صاحب مخاطب ہیں۔ مجھے پرسہ دے رہے ہیں۔ مجھے تلقین صبر کررہے ہیں۔ نواب بہادر یار جنگ سے یہ عقیدت معین کو زندگی بھر رہی۔ وہ جب بھی نواب صاحب کا ذکر کرتا تو بڑی عقیدت سے اور بڑے والہانہ پن سے۔ پاکستان آنے کے بعد بعد معین اور اس کے رفیق وحید الدین خان بوزی نے یوم بہادر یار جنگ منانے کا اہتمام کیا جون کا مہینہ آتا تو معین الدین اور وحید الدین خان بوم بہادر یار جنگ کی تیاریوں میں منہک ہو جاتے۔ کبھی اخباروں کے دفتروں میں چکر لگا رہے ہیں تو کبھی مقررین کے گھروں کے۔ اب وحید الدین خان اکیلے ہی یہ سب کچھ کرتے ہیں۔ انہیں معین کتنا یاد آتا ہو گا۔ یہ انہیں سے پوچھیئے۔
تعزیت اور پرسے کی بات چلی تھی۔ ایک اپنا واقعہ بھی بیان کردوں۔ میرے والد کا انتقال ہو گیا۔ معین کو خبر نہ ہوسکی۔ وہ میت میں شریک نہ ہو سکا۔ چوتھے دن اسے خبر ملی۔ شام کے وقت وہ ایک اور دوست کے ہمراہ میرے گھر آیا۔ ہم تینوں قبرستان گئے۔ فاتحہ پڑھی اور معین باتیں کرتا ہوا ہمیں ایک ہوٹل میں لے گیا۔ وہاں کوئی تین چار گھٹنے بیٹھے۔ دنیا بھر کی باتیں ہوئیں مگر معین نے اظہار تعزیت کیا اور نہ مجھے صبر کی تلقین کی۔ مگر جب وہاں سے اٹھ کر گھر پہنچا تو یوں محسوس ہوا کہ اضطراب غم میںکمی آگئی ہے۔ دل کو سکون مل گیا ہے۔
یہ تسلی بخش ادائیں معین کا خاصہ تھیں۔ مجھے اس کے بے شمار تجربے ہوئے۔ اس سے مل کر بڑا سکون ملتا تھا۔ اب بھی اس کی یاد میں ویسا ہی سکون ملتا ہے۔ وہ دوسروں کے غم کو سمجھتا ہی نہیں انہیں اپنا بنا لیتا تھا، اور اسی صفت نیاسے اپنے دوستوں کا محبوب بنا دیا تھا۔
میں نے عرض کیا کہ معین نے المیہ تحریروں سے اپنی ادبی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ پھر وہ قہقے لے کر اسٹیج پر آیا۔ لیکن غور کیجئے تو پتہ چلے گا کہ ان قہقوں میں جان اسی لئے پڑی تھی کہ وہ آنسوئوں کی لوٹ سے نکلے تھے۔ اس کے ڈراموں میں طنزیہ مکالموں پر بے اختیار ہنس پڑنے والے اگر ذرا ذہن پر زور دیں تو کیا رونے پر مجبور نہ ہو جائیں گے ان قدروں کی موت پر جو معین کو عزیز تھیں جن سے اس نے زندگی بھر محبت کی۔
معین خلوص کا پیکر تھا۔ اس کی ساری زندگی خلوص سے عبارت تھی۔ وہ منافقت کو برداشت نہ کرسکتا تھا۔ زندگی میں جہاں اسے منافقت نظر آتی وہ اس کی پول کھول دینے پر تل جاتا۔ اس کے لئے اس نے طنز کے ہتھیار کو اپنایا۔ اس کی ڈرامہ نگاری کا آغاز بھی اسی جذبے کے تحت ہوا۔ ترقی پسند ادب کی تحریک زوروں پرت ھی۔ دانشوروں کی کھیپ کی کھیپ ادب کے بازار میں آرہی تھی۔ چند الفاظ اور چند اصطلاحات ان کی دانشوری کا اثاثہ ہوتے۔ معین نے اپنا پہلا ڈرامہ ایسے ہی دانشوروں پر لکھا۔ ایک مشاعرہ پیش کیا جس میں سارے شاعر معری نظمیں سناتے ہیں۔ صدر مشاعرہ ادب اور زندگی کے عنوان پر تقریر فرماتے ہیں۔ دس منٹ کی تقریر جو نہات مغلق الفاظ اور مرعوب کن ترکیبوں کا مجموعہ تھی۔ مگر کمال یہ کہ ایک جملے میں بھی معنی نہیں۔ یہ ڈرامہ معین نے اس وقت لکھا جب وہ انٹرمیڈیٹ کا طالب علم تھا۔ یہ ڈرامہ یونین کی سالانہ تقریب میں پیش ہوا۔ دوسرے سال معین نے ایک اور ڈرامہ لکھا ”سرکاری دکان” جنگ کے راشنگ نے نظام کو جنم دیا۔ ڈرامہ اسی سے پیدا ہونے والے مسائل پر تھا مگر طنز کے ہدف اتحادیوں کے انسانیت اور انسان دوستی کے دعوے تھے۔ طالب علمی کے دور میں معین نے کوئی پانچ چھ ڈرامے لکھے جو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اسٹیج ہوئے۔ ہر ڈرامہ زندگی کی کسی نہ کسی منافقت پر طنز تھا۔
ملک تقسیم ہوا تو ہندوستان میںمسلمانوں پر قیامت ٹوٹی۔ وسطی ہند کی ہندو ریاستوں کے لئے پٹے مسلمان حیدرآباد آنے لگے۔ جامعہ عثمانیہ کے طلباء ریلوے اسٹیشن پر ان قافلوں کا استقبال کرتے۔ قلی ن کر ان کا سامان اٹھاتے اور انہیں عارضی کیمپوں میں پہنچاتے۔ معین بھی اس کام میں پیش پیش رہتا۔ آنے والوں کی درد بھری داستانوں نے اسے بے حد متاثر کیا۔ اپنے تاثرات اس نے کئی مضامین میں بیان کئے انہیں دنوں اس نے ایک مضمون لکھا ” میں مسلمان ہوتا مہاتما جی ” اس مضمون میں وہی تلخیاں تھیں جن سے ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمان دوچار تھے۔ مگر اس مضمون کا اختتام عجیب تھا۔ معین نے لکھا تھا ” مہاتما جی میں اپنا گھر چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ میں ہجرت کررہا ہوں۔ اب توآپ خوش ہیں نا۔ مگر مہاتما جی میری تاریخ میری ہجرت کے بعد فتح مکہ بھی ہے” مگر یہ بات ان دنوں کی ہے جب وہ خود مہاجر نہیں بنا تھا۔ اور جب خود اس تجربے سے گزرا تو اسے پتہ چلا کہ ہم وہ مہاجر نہیں جن کے ہاتھوں فتح مکہ ہو سکے اور یہی تاسف آپ کو معین کے ان ڈراموں میںملے گا جو اس نے پاکستان میں لکھے۔ وہ یہی تو بتاتا ہے نا کہ ہم نے صرف وطن ہی نہیں وڑاگھر بار ہی نہیں چھوڑا ہم نے وہ قدریں بھی چھوڑ دیں جن سے اسلاف کی زندگی عبارت تھی۔ اس کبھی وہ طنز کے پیرائوں میں بیان کرتا تو کبھی ناصحانہ انداز میں۔
معین کا ڈرامہ تعلیم بالغان سب سے زیادہ مقبول ہوا۔ آج بھی اسے آپ دیکھیںگے تو ڈرامے میں ایک مقام پر شاگرد اپنے استاد سے سوال کرتا ہے کو اردو پاکستان کی قومی اور سرکاری زبان کیوںنہیں بنتی۔ استاد سے جواب نہیں بن پڑتا۔ وہ چارپائی پر بیٹھا اونگھنے لگتا ہے بلکہ سو جاتا ہے۔ ذرا غور فرمائیے کہ آپ ہم اور ہمارے سیاست کار(سیاست کار کی ترکیب میں نے جان بوجھ کر استعمال کی ہے) یہی تو کرتے آئے ہیں کہ جہاں کوئی فیصلہ کن مرحلہ آتا ہے سو جاتے ہیں
ہر چند بگولہ مضظر ہے ایک جوش تو اس کے اندر ہے
ایک جہ تو ہے ایک رقص تو ہے ناشاد سہی برباد سہی