جماعتی بنیاد پر ہونے والا احتساب عوام کی نظر میں مشکوک ہوتا ہے سب کے لئے ایک ہی قانون اور ایک ہی معیار ہونا بہت ضروری ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ”احتساب” کا لفظ اپنی ساکھ کھو چکا ہے کیونکہ ہر منتخب حکومت کو اپنی مدت پوری کئے بغیر گھر بھیجنے کے بعد احتساب کے نام پر انتقام کا کھیل کھیلا گیا ہے۔ اپنے مخالفین یا اسٹیبلشمنٹ کی طاقت سے ٹکرانے والوں کو جیل بھیج کر اذیتیں دے کر تذلیل کرکے یا تو انہیں ختم کر دیا جاتا ہے یا گورنر یا وزیر بنا کر اہم عہدوں پر فائز کر دیا جاتا اور عوام کے دماغ میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کل تک کا چور بدعنوان بے ایمان آدمی آج کیسے تن کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ گیا۔ عوام کئی برسوں سے یہ تماشہ دیکھ دیکھ کر تھک گئے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے ہتھکنڈوں سے آشنا ہو گئے ہیں۔ اب انہیں کسی پر اعتبار نہیں رہا اور یہ بڑی افسوسناک صورتحال ہے ۔ میاں نوازشریف کے پہلے دور میں ایک صاحب سیف الرحمان سامنے آئے تھے انہیں احتساب کے ادارے کا سربراہ بنایاگیا تھا۔ آصف زرداری سمیت پی پی پی کے کئی ارکان جیلوں میں ڈال دیئے گئے۔ پھر ایک دن آیا کہ سیف الرحمن بھی اڈیالہ جیل آگئے اور پھر موصوف کی ملاقات آصف زرداری سے ہو گئی انہوں نے پوچھا خیر پہلے اور سیف الرحمان معافیاں مانگنے لگے۔ آج ایک اڑتی خبر آئی ہے کہ عمران کے سیف الرحمان شہزاد اکبر نے اپنا استعفیٰ خا صاحب کو بھیج دیا ۔ اگر میاں نوازشریف دوبارہ اقتدار میں آگئے تو شہزاد اکبر صاحب بھی اڈیالہ جائیں گے اور پھر معافیاں تلافیاں ہوں گی۔ استعفیٰ کی وجہ بھی کچھ اس طرح کی ہے کہ جہانگیر ترین کے ساتھیوں نے شہزاد اکبر کو دھمکیاں دینا شروع کر دیں ہیں ”کہ تیرا کیا بنے گا کالیا؟” اتنی جلدی استعفیٰ کیوں؟ سندھ کا ایک مزاحیہ مولوی ہے اس کا تکیہ کلام ہے ”جھل دب” یعنی ”برداشت کرو” تو ہم تو شہزاد ابکبر کو یہی کہیں کے ”جھل دب” جہانگیر ترین تو پھر بھی شاید معاف کر دیں میاں صاحبان انتقام کے معاملے میں معافی کا خانہ نہیں رکھتے ہیں اگر انکے ہتھے شہزاد اکبر آ گئے تو اچھا نہیں ہو گا اصل بات یہ ہے کہ جس معاشرے میں جنگل کا قانون ہو کہ NIGHT IS RIGHT تو وہاں انصاف پنپ نہیں سکتا۔ انصاف اور قانون کا راج چہرے اور عہدے دیکھ کر نہیں نافذ کیا جاسکتا ہے اس معاملے میں ضروری ہے کہ انصاف اندھا ہو!! اگر قانون کا نفاذ دسرے معیار سے کرینگے تو انصاف کبھی نہیں ہو گا قانون سب کے لئے برابر ہونا چاہیے بلکہ طاقتور کو جرم کی سزا ملنا نہایت ضروری ہے تاکہ اوروں کو قانون شکنی کی ہمت ہی نہ ہو۔ احتساب کے نام میں نیب عدالتیں بھی احتساب کے نام میں دھبا ہے جہاں پر ملزموں اور ان کے وارثوں سے کھلے عام رشوت لی جاتی ہو تو ایسی عدالت کیا احتساب کرے گی نیب کا ادارہ ہر دور میں سیاسی مخالفین کے بازو موڑنے کیلئے بنائے گئے ہیں جس ادارے کے معرفت وفاداریاں تبدیل کی جاتی ہوں اس پر احتساب کا ادارہ ہونے کا الزام محض ایک مذاق اور تہمت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ احتساب کو پاکستان میں اتنا بدنام کیا ہے کہ یہ لفظ اب عوام میں بے توقیر ہو کر رہ گیا ہے دنیا بھر میں اب نیب ایران کی خفیہ ایجنسی ساوق کی مسخ شدہ صورت اختیار کر گئی ہے جتنے بھی مقدمہ نیب نے بنا کر برطانیہ اور کینیڈا بھیجے تھے سب واپس پاکستان بھیج دیئے گئے ہیں ابھی حال ہی میں ورلڈ بنک نے کہہ دیا ہے کہ میاں نوازشریف پر لگائے گئے منی لانڈرنگ کے مقدمات میں بین الاقوامی سطح پر کوئی شواہد نہیں ملتے ہیں۔ خدا کے واسطے اب یہ احتساب کا ڈھونگ بند کیا جائے اگر کسی پر رشوت ستانی یا بدعنوانی کا مقدمہ ہے تو انہیں عام عدالتوں یا اینٹی کرپشن کی خاص عدالتوں میں مروجہ قوانین پر چلنا چاہئے۔ احتساب میں باہر سے جو لوٹی ہوئی دولت خان صاحب نے واپس لانی تھی اس میں تو ایک دھیلا نہیں آیا البتہ سرکاری دفاتر میں افسروں نے فیصلہ موخر کرنا شروع کر دیئے ہیں کہ اگر کسی نے ان کے خلاف درخواست دیدی تو نیب کے افسران ان کی زندگی زہر کر دیں گے۔ عمران خان کی بڑھکوں والی حکومت میں بدعوانی ختم ہونے کے بجائے بین الاقوامی اعداد و شمار کے مطابق 21فیصد بڑھ گئی ہے ، ہر سطح پر اور ہر ادارے میں نہ صرف بدعنوانی بڑھتی ہے قیمتیں بڑھ گئیں ، بیروزگاری بڑھ گئی، لاقانونیت بڑھ گئی، بدانتظامی بڑھ گئی، حال ہی میں تحریک انصاف کے ایک اور بنیادی ممبر احمد جواد نے عمران خان کے خلاف ایک واہیٹ پیپر شائع کر دیا ہے ،فارن فنڈ والا معاملہ جیسے اکبر ایس بابر نے جو عدالتوں اور الیکشن کمیشن میں جو درخواستیں دی تھیں وہ ابھی چل ہی رہی ہیں اب احمد جواد بھی آگئے ہیں اب تو ترس آتا ہے عمران خان پر جو ایسے لگ رہے ہیں جیسے ”غنڈوں میں پھنسی ہوئی رضیہ!”