اقتدار چار دن کا ہوتا ہے اس کے بعد تاریخ بن جاتا ہے وہ چار دن ہمارے لئے آزمائش ہوتے ہیں، جن کو سمجھ اور توفیق مل جاتی ہے وہ اپنی دنیا بھی سنوار لیتے ہیں اور آخرت بھی جن کو سمجھ نہ آئے تو وہ توفیق چھن جاتی ہے، پھر ان چار دنوں کو وہ مرتے دم تک قائم رکھنا چاہتے ہیں اور یہی وہ توفیق ہے جس کو وہ ضائع کر بیٹھتا ہے، حالانکہ تاریخ ہمارے سامنے ہے، ابھی کل کی بات ہے شہنشاہ ایران ایک طاقتور بادشاہ تھا، ہزار سالہ جشن منایا وہ سمجھ بیٹھا کہ اب میں اور میری نسل ہی بادشاہ ہوگی مگر کیا ہوا ہزار سالہ جشن پر کروڑوں ڈالر خرچنے والا، دنیا میں قبر کی دو گز زمین کیلئے ترستا رہا، لیکن جن کو سمجھ آجائے تو ریاست مدینہ کا پہلا حکام حضرت سیدنا صدیق اکبر نے جب کھانے میں ایک چیز زائد دیکھی بعض علماء نے حلوہ لکھا ہے، پوچھا میری تنخواہ میں یہ چیز بن نہیں سکتی کس طرح بن گئی، زوجہ محترمہ نے جواب دیا کبھی کبھی ایک درہم بچ جاتا، تو میں جمع کرتی رہی، بالآخر یہ حلوہ بن گیا آپ نے منتظم بیت المال کو سرکاری خط لکھا کہ میری تنخواہ سے ایک درہم کم کر دیا جائے حالانکہ ایک درہم کی کیا حیثیت ہوتی ہے، حالانکہ حضرت عبدالرحمن بن عوف جیسے مالدار ساتھی موجود تھے ایک اشارے پر گھر کا بوجھ اٹھانے کیلئے تیار تھے، مگر سیدنا صدیق اکبر نے خرچ بڑھانے کی بجائے ایک درہم کم کر دیا، جب آپ کا وقت قریب آیا تو آپ نے سیدہ عائشہ صدیقہ کو بلایا اور فرمایا بیٹی مجھے مسلمانوں کا امیر حاکم بنایا گیا تھا، میں نے حسب ضرورت کھانے اور پہننے کے علاوہ ایک درہم یا دینار زائد نہیں لیا میری پیاری بیٹی جب میں فوت ہو جائوں تو میرے پاس یہ غلام اونٹ اور یہ کپڑا ہے یہ بیت المال کا ہے، اس کو حضرت عمر کے سپرد کر دینا، حضرت صدیق اکبر کے وصال کے بعد جب یہ چیزیں حضرت عمر کو پہنچائی گئیں، تو انہوں نے فرمایا اے ابوبکر اللہ تم پر رحمتوں کی برسات نازل فرمائے آپ نے ہر بعد میں آنے والے کو مشقت میں ڈال دیا ہے، ریاست مدینہ کے حاکم خود ہی حاکم تھے اور خود ہی محتسب تھے۔ مگر افسوس ہے ہم موجودہ دور میں ریاست مدینہ کو بُری طرح بدنام کر رہے ہیں اس کا یہ مطلب نہیں جو ریاست مدینہ کا نام نہیں لیتے تھے وہ مدینے والوں کے نقش قدم پر تھے، وہ بھی دنیا ہی بناتے رہے وہ بھی اپنے چار دنوں کو سنبھال نہ سکے حاکم امیر ہو گئے ریاست غریب ہو گئی۔
٭٭٭