نوسرباز ملاح!!!

0
215
ماجد جرال
ماجد جرال

یہ کشتی ڈوبی کیوں؟ ملاح بھی بھرپور جواں تھے، سمندر کی لہروں کو بھی خاموش رہنے کا حکم تھا، باد مخالف بھی سہم کر چلتی تھی، طوفان بھی گوشہ نشینی میں تھے، مگرمچھ بھی سارے قید تھے اور سمندر بھی صاف شفاف کرکے حوالے کیا گیا تو پھر کیا وجہ بنی کہ کشتی ڈوب گئی۔پاکستان کی تاریخ میں یہ شاید دوسری حکومت تھی جس کی اپوزیشن آٹے میں نمک کے برابر تھی، درحقیقت ان کو حقیقی و مجازی ہر طرح کی اپوزیشن کی مخالفت کا سامنا نہیں تھا۔ پہلی میری معلومات کے مطابق پرویز مشرف کی چھتری تلے جنم لینے والی “ق لیگ” اور دوسری پاکستان تحریک انصاف تھی۔سیاسی و دفاعی تجربات میں بڑا فرق ہوتا ہے، دفاعی تجربہ ناکام بھی ہوجائے تو کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی، کیا خبر کہ غوری، شاہین، حتف میزائل کے کامیاب تجربات سے قبل کتنے ناکام تجربات بھی ہوئے ہوں گے، مگر خبر صرف کامیابی پر ہی جاری ہوتی ہے۔ اس سیاسی تجربے کے لیے بھی ابتدا میں اسی حکمت عملی کو بروئے کار لایا گیا۔پے در پے ناکامیاں ان کے ہاتھوں روز اول سے ہی سرزد ہونے لگیں، جنہیں چھپانے یا نظر انداز کرنے کے لیے ہی اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کو کھل کر میڈیا کو چھ ماہ تک مثبت رپورٹنگ کے احکامات جاری کرنے پڑے۔ میڈیا کو خریدا گیا، دبائو میں لایا گیا اور جانے کیا کیا حربے استعمال نہیں ہوئے۔ ترجمانوں کی فوج کھڑی کی گئی جو ہر ناکامی پر بیانیہ ترتیب دیتی رہی، مختلف جواز گھڑ کر عوام کو بے وقوف بنایا جاتا رہا، جس نے ان کی ناکامی کو بیان کرنا چاہا اسی کی کردار کشی شروع کردی گئی اور جانے کیا کیا ہوا۔کرپشن پاکستان میں بڑھی تو اسی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی کریڈیبلٹی کو سوالیہ بنانے کی کوشش شروع کردی گئی ۔ مہنگی بجلی کے فضائل و وجوہات اتنی باریکی سے بتائے جانے لگے جس میں چند پیسوں کے اضافے پر بل جلائے جاتے اور جلائے جانے کی ترغیب دی جاتی تھی، گیس، پٹرول، کھانے پینے کی اشیا سمیت مہنگائی کی گود میں جا پڑنے والی اشیا پر رنگ برنگے ترانے لگ گئے۔ مگر حاصل کیا ہوا جناب احتساب اعلی شہزاد اکبر کا استعفیٰ کا لالی پاپ تھما دیا گیا۔ایک مدت تو مافیا مافیا کا ورد کرتے گزری اور جب بات پھر بھی نہیں بنی تو میں سڑکوں پر آگیا تو خیر نہیں، جس پر سلیم صافی صاحب کے ٹویٹ نے ان کی اس خرمستی پر خوب جواب دیا ہے۔ پاکستان کی آنے والی کسی بھی حکومت کو اب خوف ہے تو اس معاشی دہشت گردی سے نمٹنے کا جو ہر گلی محلے میں اپنے قدم جما بیٹھی ہے۔ شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو جو اس بات سے اتفاق نہ کرے کہ ان نوسربازوں کو چلانے کے لئے فوج نے پورا زور لگایا، اپوزیشن کو دبائو میں رکھا مگر پھر بھی آج پاکستان میں حالت زار پر لوگوں کا رونے نہیں مرجانے کو دل چاہتا ہے۔شاباش ان حکومتوں کے لیے بنتی ہے جن کو روز اول سے جرنیلوں کی چالوں کا سامنا رہا مگر پھر بھی انہوں نے کچھ نہ کچھ ڈلیور کیا۔ مگر ان کے لیے میڈیا سمیت ہر چیز سیٹ کرکے دی گئی، ہر مخالف آواز کو دبایا گیا، ماہرین کو بزور طاقت اس کشتی پر سوار کروایا گیا مگر پھر بھی یہ کشتی کیوں ڈوبی، جانے کیوں سمجھ سے بالاتر ہے یا پھر ہم بالاتر رکھنا چاہتے ہیں کہ اس کشتی کا ملاح نوسرباز تھا جس نے ان طاقتوں کو بھی شیشے میں اتار لیا جو سب کو اتراتی ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here