پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے دعویدار عمران خان نے قوم سے کیے گئے اپنے ایک بھی وعدے کو پورا نہیں کیا ہے، الیکشن سے قبل 90 روز میں کرپشن ختم کرنے کا دعویٰ کیا گیا لیکن حکومت میں آنے کے بعد ملک میں کرپشن عروج پر ہے اور یہ بھی اطلاعات ہیں کہ تحریک انصاف کے اکثر اراکین بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں ، عوام کا مہنگائی میں جینا محال ہے، اس سب صورتحال کے دوران جہاں وزیراعظم عمران خان کو عوام کا شکر گزار ہونا چاہئے وہیں دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں، قوم کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے میڈیا سے گلے شکوے کیے کہ وہ تصویر کے دونوں رخ نہیں دکھا رہے جبکہ زور دار آواز میں یہ بھی کہہ ڈالا کہ اگر مجھے اقتدار سے ہٹانے کی کوشش کی تو میں زیادہ خطرناک ہو جائوں گا ، میں سڑکوں پر آئوں گا اور پھر میرے حریفوں کو چھپنے کیلئے جگہ نہیں ملے گی۔وزیراعظم عمران خان کا یہ بیان جہاں ان کی بوکھلاہٹ اور گھبراہٹ کوظاہرکرتا ہے ، پاکستان جیسے ملک میں کوئی شخصیت اپنے آپ کو فرد واحد قرار نہیں دے سکتی ہے ، پاکستان کی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو سے زیادہ مضبوط اور مقبول لیڈر کبھی نہیں آیا ، جس کا نہ صرف پاکستان بلکہ مسلم دنیا میں ڈنکا بجتا تھا اور پھر اسلامی دنیا کے اس مقبول لیڈر کے ساتھ جو پاکستان میں ہوا وہ اپنی مثال آپ ہے ، بھٹو کو فرضی قتل کے مقدمے میں پھانسی پر چڑھا دیا گیا اور جب تک بھٹو سلاخوں کے پیچھے قید تھا کوئی ایک شخص اس کی حمایت میں سڑکوں پر نہیں آیا، اب عمران خان کو سوچنا ہے کہ وہ کس طرح اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ ، اداروں اور اپوزیشن کو للکار سکتے ہیں،عمران خان کے طرز حکمرانی کے حوالے سے عوام کے لیے بھی سوالات جنم لے رہے ہیں کہ وہ آئندہ عمران خان کو ملک کا سربراہ منتخب کریں گے یا نہیں، عمران خان کی ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ گزشتہ حکومتوں کی کرپٹ باقیات موجودہ حکومت کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن گئی ہے ، سابقہ حکومتوں کی جانب سے بھرتی کیے گئے راشی افسران اپنی کرپشن کو کسی صورت بند کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔مہنگائی کا ذمہ دار صرف عمران خان کو ٹھہرانا اس لیے مناسب نہیں ہے کہ یہ اب عالمی مسئلہ بن گیا ہے ، امریکہ سمیت دنیا بھر میں مہنگائی بڑھی ہے ، امریکہ میں بریڈ جو 2ڈالر میں دستیاب تھی اب 5 ڈالر کی ہو چکی ہے اور اسی حساب سے دیگر ضروریات زندگی کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، لیکن پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ ملک میں پیدا ہونے والی گندم ، چینی اور دیگر اجناس کی وافر پیداوار کے باوجود حکومت کو یہ سب چیزیں بیرون ممالک سے امپورٹ کرنا پڑ رہی ہیں جوکہ ظاہری بات ہے کہ پاکستان میں ملنے والی اشیا سے زائد قیمت پر منگوائی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے ۔عمران خان اپنی ٹیم میں اہل افراد کو منتخب کرنے میں ناکام رہے ہیں،عمران خان کی حکومت میں اب تک کئی وزرا کو اپنی کم تجربہ کاری کی وجہ سے تبدیل کیا جا چکا ہے جبکہ ان کی جگہ سابقہ حکومتوں کے نمائندے کو لانا پڑ ا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے انتظامی طور پر تو ملک کو کمزور کیا ہے لیکن اخلاقی طور پر بھی موردالزام ٹہرے ہیں، موصوف نے ملک کی نوجوان نسل میں جو طوفان بدتمیزی پروان چڑھایا ہے وہ ناقابل معافی جرم ہے۔عمران خان کی حکومت اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے اور اگر اس دوران بھی غریب عوام کو ریلیف فراہم نہیں کیا گیا تو پی ٹی آئی کی حکومت کا آئندہ اقتدار میں آنا معجزہ ہی ہوگا۔تحریک انصاف کی حکومت کو چاہئے کہ اپنے دور حکومت کے اختتام پر فلاحی اور عوامی منصبوے متعارف کروائیں تاکہ غریب اور عام آدمی کو ریلیف ملے اور اس حکومت کے مستقبل کے لیے راہیں روشن ہو سکیں ، ورنہ ابھی تک مہنگائی ، غربت اور بے روزگاری سے ستائے نوجوان ڈکیتی ، چوریوں پر اتر آئے ہیں اور جو افراد ان جرائم کی سکت نہیں رکھتے ہیں وہ خودکشیوں پر مجبور ہوگئے ہیں۔اس حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کو درست سمت میں لانے کے لیے کردار ادا کرے ، حکومت کی جانب سے صحت کارڈ شروع کر کے عام آدمی کو ریلیف دینے کی کوشش کی گئی ہے لیکن عام افراد کو علاج کی بجائے اپنے روز مرہ کے اخراجات کو پورا کرنے کی فکر ہے جس کے لیے حکومت وقت کو ریلیف فراہم کرنا چاہئے۔عام آدمی کو فائدہ پہنچنے پر ہی تحریک انصاف کی حکومت آئندہ الیکشن میں بھرپور طریقے سے حصہ لے سکتی ہے ، حکومت کو چاہئے کہ صحت کارڈ کے ساتھ راشن کارڈ اور نوجوانوں کے لیے روزگار کو یقینی بنائے جوکہ کرونا ، اومیکرون کی قدراتی آفات کے ذریعے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
٭٭٭