امریکی سیاست کے شب و روز رحم ٹی وی پر!!!

0
135
کامل احمر

ہم بی بی سی دیکھتے ہیں ویوزو نیوزدیکھتے ہیں اور الجزیرہ کہ دیکھیں دنیا میں کیا ہو رہاہے اور دنیا بھر میں واقع ہونے والے حالات سے بے باخبر رہتے ہیں کہ کوئی ہم خیال ملے تو تبصرہ اور تبادلہ خیال کریں جو مشکل سے ہی ملتا ہے کہ ہماری عمر کے لوگوں کی معلومات کسی شعبہ میں، سیاست، ادب، اسلام اور فنون لطیفہ میں نہ ہونے کے برابر ہے وہ یہاں آکر بھی پاکستان میں چھوڑی ہوئی اپنی جائیدادوں، زمینوں اور مکانوں سے وصول ہونے والے کرایوں کی رقم کا حساب کرتے رہتے ہیں، ساٹھ کی دہائی سے پہلے ہر انسان باشعور تھا۔ وہ معاشرہ سدھار فلمیں بھی دیکھتا تھا محبوب خان اور ایم صادق اوراے آر کاردار (حفیظ کاردار) بڑے بھائی کی بنائی فلموں سے تفریح لیتا تھا اور قوالی، مشاعروں سے ذہن کی تسکین حاصل کرتا تھا۔ اس کے بعد بالخصوص پاکستان میں بھونچال آنا شروع ہو گیا میرٹ ختم ہوگیا اور قابل لوگ ملک چھوڑ چھوڑ کر دوسرے مغربی ممالک کی طرف گامزن ہوتے رہے۔ لندن اور اب امریکہ ان کا گڑھ ہے جہاں پاکستان سے لوٹ مار کر کے بھاگے ہوئے بیوروکریٹ،بزنس مین اور سیاست دانوں کے علاوہ چند دانشور، لکھاری شعراء کے علاوہ صلاحیتوں سے بھرپور صحافی اور ٹی وی نشریات کو عروج پر لے جانے والی شخصیات بھی یہاں رہ کر پاکستان کا نام روشن کررہی ہیں ان میں دو نام سرفہرست ہیں عتیق صدیقی اور جہانگیر خٹک۔ دونوں کا تعلق صحافت اور نشریات سے ر ہا ہے۔ عتیق صدیق پشاور ٹی کے ڈائریکٹر رہ چکے ہیں اور یہاں مقامی اخبارات میں ان کے کالم جو مغربی سیاست پر ہوتے ہیں باشعور طبقے میں دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں پہلے ہم اس جانکاری کے لئے نیویارک ٹائم دیکھتے تھے یہ سلسلہ ختم ہوا تو عتیق صدیقی کا کالم پڑھ کر سیر ہوتے گئے۔ بہت کچھ لکھ سکتے ہیں ان کے لئے کہ عرصہ سے ہمارے رابطے میں رہے ہیں یہ بھی بتاتے چلیں کہ وہ اپنے وقتوں میں ڈراموں کے اچھے لکھاری بھی رہے ہیں دوسرے معنوں میں اچھے ڈراموں کے لکھاری ان کی پہچان بنی تھی۔ پی ٹی وی کے حوالے سے ہمارے لئے سب سے بڑی دلچسپی ان کی ہما گیر شخصیت ہے کہ وہ نیویارک سے 200میل کی دوری کو عبور کرکے حلقہ ارباب ذوق کو دونوں طریقوں سے نوازتے رہے ہیں۔ دوسری شخصیت جہانگیر خٹک ہیں ان کا تعلق بھی خبیر پختونخوا سے سے ہے یہاں نیویارک میں امریکی میڈیا اور صحافتی حلقوں میں جانی پہچانی شخصیت ہیں اور ان کی صحافتی پیشہ ورانہ تفیصل پاکستان سے ملتی ہے کہ افغانستان پر روس کے قبضے کی کوریج1990 میں کر چکے ہیں کمیونی کیشن سنٹر میں میڈیا کے ڈائریکٹر ہیں اور CUNY سٹی یونیورسٹی میں کو ڈائریکٹر ہیں سینٹر آف کمیونٹی اور مذہبی میڈیا کے لئے سینئر ایڈیٹر ہیں وائس آف نیویارک کے اور گریجویٹ اسکول آف جنرلزم سے تعلق رکھتے ہیں ایک تفیصل جو گوگل کرکے پڑھی جا سکتی ہے یہ سب لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ اتنے ہی اچھے تجزیہ نگار اور مستقبل میں ملکی اور غیر ملکی (امریکی اور یورپین) سیاست اور ظہور پذیر واقعات پر بے لاگ تبصرہ کرنے کی صلاحیتوں سے بھرپور کہ سن کر ہم بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ اب یہ بھی بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ نیویارک سے الیکٹرانک میڈیا کے ایک مذہبی چینل رحم ٹی وی پر ہفتہ وار مہمان بن کر آرہے ہیں طاہر (معروف شخصیت) جو کسی تعارف کے محتاج نہیں کے پروگرام ”امریکی سیاست کے شب و روز” اس پروگرام میں اور دوسرے مہمان بھی آتے ہیں لیکن عتیق صدیقی اور جہانگیر خٹک سیاست پر عام فہم زبان میں تبصرہ کرتے ہیں لگتا ہے ایک اچھا پروفیسر طلبا کو ذہن نیشن کرا رہا ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔
پچھلے ہفتہ حسب معمول ہم نے جہانگیر خٹک کا تجزیہ سنا جو فون کے ذریعہ شامل تھے اور طاہر خان صاحب کا سوال تھا کہ پاکستان میں حالیہ قومی سلامتی کے حوالے سے ۔ جہانگیر خٹک صاحب نے جس انداز سے سننے والوں کو قومی سلامتی کے بارے میں ذہن نیشن کرایا وہ صرف ملک کے دفاع کے حوالے سے بات تھی۔ یعنی ، پانی خوراک(اناج) اور انرجی( بجلی اور گیس) ۔ اسی طرح عتیق صدیقی نے امریکی سیاست کے حوالے سے صدر بائیڈن کے گرتے ہوئے گراف پر اور ٹرمپ کی موجودگی اور مڈٹرم الیکشن پر سرحاصل تبصرہ کیا ہم ان سے اتفاق کرتے ہیں بہت کم ایسا ہوتا کہ سی این این پر ہر اتوار کو فریدذکریہ ملکی اور غیر ملکی حالات پر تجزیہ اور تبصرہ کرتے ہیں ہماری نظر میں امریکی صحافت میں فرید ذکریہ نہایت سینئر صحافی ہیں لیکن ان کے پروگرام میں شامل بہت سی گفتگو کو ہم نظر انداز کر جاتے ہیں ایسا نہیں ہے کہ وہ غلط بات کہہ رہے ہوتے ہیں لیکن اپنا اپنا انداز ہے جو ہم پچھلے پچاس سالوں سے واٹر کرون کائٹ سے پیٹر جینگ اور برنارڈ شاہ، باب وڈواڈ اور عرب نژاد کرسٹین امن پور جو مڈل ایسٹ سیاست پر عبور رکھتی ہیں۔
ہر چند کہ رحم ٹی وی بہت کم مشہور چنیل ہے لیکن ہم منیر اخوان صاحب (ٹی وی کے کرتا دھرتا) کو خراج تحسین پیش کریں گے کہ اس چینل کے توسط سے ہمیں ایک خوبصورت اور معلوماتی پروگرام دیکھنے اور سننے کو مل رہا ہے اور اس کی ضرورت ہے نہ صرف یہ بلکہ یہ ایک معیاری پروگرام ہے اور اس کے خالق طاہر خان صاحب ہیں۔ اس مختصر کالم میں ہم میڈیا کے حوالے سے بہت کچھ لکھنا چاہتے تھے لیکن مجبوری ہے ۔ طاہر خان صاحب عرصہ دراز سے نیویارک کی ادبی اور سماجی سرگرمیوں کے روح رواں رہے ہیں۔ حلقہ ارباب ذوق کے بانیوں میں سے ایک ہیں اور اب ان کی پرواز الیکٹرانک میڈیا سے جڑ گئی ہے وہ ایک نہایت ہی اعلی پائے کے ناظم ہیں جو سوئے ہوئے مشاعرے کو جگانے کا فن جانتے ہیں ان کا تعلق بھی خیبر پختونخوا سے ہے جبکہ تعلیم کراچی میں حاصل کی ہے۔
ہم نے کہا تھا اور دہراتے ہیں کہ پاکستان کے ہر صوبے بالخصوص خیبر پختونخوا میں بڑے بڑے گوہر نایاب ہیں ہمیں حیرت بھی ہوتی ہے کہ پتھریلی خشک زمین سے گلاب ابھرتا ہے ہمیں یاد ہے مردار سے ایک ادبی رسالہ ”قند” نکلتا تھا جس کے مدیر تھے تاج سعید جو دوہوں کے لئے مشہور تھے ان کے دوہے سے کچھ بند
چندہ کی شتل جیوتی میں
نینوں کے ہر موتی میں
پی کے یاد جگائیو ری من اپنا تڑپائیوری…

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here