کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہت !!!

0
20

2019 میں ڈھاکہ کے بسنے والوں نے جب مسلم لیگ جیسی سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھی تھی تو انہوں نے برِ صغیر کی تاریخ کا رخ یقیناً موڑ دیا تھا۔ انگریزوں کی غلامی سے نجات کے ساتھ ساتھ، مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ مملکت کا قیام، اسی مسلم لیگ کی سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں منظرِ عالم پر آیا۔ ویسے تو سقوطِ پاکستان کی وجہ سے ہر سال دسمبر کا مہینہ، برِ صغیر کے مسلمانوں کیلئے غم و الم ساتھ لاتا ہے لیکن اس سال بنگلہ دیش اور سابق پاکستان کے مغربی حصے میں سیاسی عدمِ استحکام نے صورتحال کو کچھ زیادہ ہی گمبھیربنا دیا ہے۔ دونوں ریاستوں میں انقلاب کے نعرے گونج رہے ہیں۔ مغربی حصے کے لوگ، ١٧٩١ء والی کیفیت سے گزر رہے ہیں جب چند طالع آزماؤں نے انتخابی اکثریت حاصل کرنے والوں کو اقتدار منتقل نہیں کیا تھا اور بنگلہ دیش کے شہری اپنے ملک میں بھارت کی ناجائز مداخلتوں سے بہت تنگ نظر آتے ہیں۔ شریف عثمان ہادی کی حالیہ شہادت نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ لاکھوں لوگ سڑکوں پر ہیں۔ بھارت کے خلاف اتنی شدت کا احتجاج شاید پہلے کبھی نہ دیکھا گیا ہو۔ بنگلہ دیش کی سابق ڈکٹیٹر حکمران، حسینہ واجد کو پناہ دینا، بھارت کو یقیناً مہنگا پڑ رہا ہے۔ کاش، مملکتِ خداد پاکستان کے دونوں بازو آج اسلامی جمہوری اصولوں کے تحت یکجا ہوتے تو کسی دشمن کی بھی میلی نظر ان کی طرف نہ اٹھتی۔ نصیر ترابی مرحوم نے کیا خوب کہا تھا کہ!
بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل
غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے ٹوٹنے سے، بنگلہ دیش کے باسیوں کو بیحد نقصان ہوا تھا۔ مغربی حصے کی مقتدرہ تو انہیں ایک بوجھ سمجھتی تھی لیکن مشرق کے باسیوں کیلئے تو مسلمانوں کا علیحدہ ملک ایک دیرینہ خواب تھا۔ جماعت اسلامی کے نوجوانوں نے ”بنگلہ دیش نامنظور” کی جاندار تحریک چلا کرملک کے اکھاڑ پچھاڑ کے اْس عمل پر شدید ناپسندیدگی کا اظہار ضرور کیا تھا لیکن ملک کے باقی حلقے تو تقریباً خاموش ہی رہے تھے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش تو نصف صدی سے بھی زیادہ طویل عرصے تک متحدہ پاکستان کی حفاظت کی خاطر قربانیاں دیتے چلی جارہی ہے۔ جلسے جلوسوں سے لے کر پھانسی کے پھندوں تک اور پھر حالیہ دو سالوں میں نوجوانوں کا اپنے سینوں پر گولیاں کھا کر بے خوف شہادتوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ یقیناً یہ اقدامات اب اسلامی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہونگی۔ پرامن انقلاب کیلئے صاف شفاف انتخابات کا انعقاد انتہائی ضروری ہے ورنہ سونار بنگلہ کی پاک سرزمین پر مزید سرخی پھیلے گی۔ فیض نے بھی کچھ اسی طرح کی تصویر کشی کی ہے کہ!
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
آئندہ سال، ٦٢٠٢ء میں ٢١ فروری کا دن، بنگلہ دیش میں عام انتخابات کیلئے مقرر کیا گیا ہے۔ رائے عامہ کے سروے کرنے والے بتاتے ہیں کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی پوزیشن بہت اچھی ہے۔ لیکن اصل مسئلہ تو صاف شفاف انتخابات کا بر وقت انعقاد ہے۔ بداعتمادی کی حالیہ فضاؤں میں یہ ایک انتہائی مشکل مرحلہ لگ رہا ہے لیکن اس کے علاوہ کوئی دوسرا حل بھی کسی کے پاس نہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ مغربی اور مشرقی دونوں میں حصوں چلنے والی تحریکیں خاصی حد تک پرامن ہیں۔ طاقت کے نشے میں بدحال اور بیرونی طاقتوں کی محتاج ہماری مقتدر قوتیں تو ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہیں لیکن عوام بڑی حد تک پرامن رہ کر آزادی کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ بہرحال اگلے دو تین ماہ برِ صغیر کے امن و امان کیلئے بہت اہم ہیں۔ دعا تو یہ ہے کہ اللہ ہمیں بے مہر صبحوں کی چیرہ دستی سے بچائے کیونکہ فیض تو قبل ازیں صدا کر چلے ہیں کہ
تھے بہت بے درد لمحے ختمِ درد عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here