یہ تیرے عشق کی میقات یہ ہونے کی ادا !!!

0
47

دس بارہ گھنٹے پہلے جب ہم نیویارک سے خانہ کعبہ کی جانب عازمِ حج ہوئے تو ذہن و قلب کے ہر نہاں خانے میں قبلہ دوئم کی بجائے، قبلہ اول یعنی مسجدِ اقصیٰ کی اذانیں اور غزہ کے مظلوموں کی آہیں اورسسکیاں گونج رہی تھیں۔ امریکہ کے ایک بہت بڑے رفاہی ادارے، زکواة فائونڈیشن، میں شب و روز کام کرتے ہوئے، فلسطینی مظلوموں کی مدد ہمیشہ ترجیح اول رہتی ہے اور وہاں کی تازہ ترین خبریں اور اطلاعات بہت سرعت کے ساتھ ہم تک پہنچتی رہتی ہیں تاکہ زمینی صورتحال کے مطابق اپنے فیلڈ آپریشن کو بہتر بنایا جاسکے۔ حج کی تیاریوں کے دوران بھی غزہ کی دگرگوں صورتحال پہ بے حد تشویش رہی۔ بالکل واضح ہے کہ میرا یہ سفرِ حج جس چیز سے سب سے زیادہ متاثر ہو گا، وہ غزہ کی صورتحال ہی ہوگی۔ ایسے میں احمد ندیم قاسمی صاحب کے اشعار پیش کرنے کی جسارت ضرور کروں گا کہ!
کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ہے فقط نقش کف پا تیرا
ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ہے مسجد اقصی تیرا
زمین سے ہزاروں فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہوئے، مجھے ہمیشہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے زمین و آسمان کے درمیان لٹکا دیا گیا ہوں۔ ایک انجانا خوف لگا رہتا ہے کہ کہیں ایسے نہ ہو جائے، کہیں ویسے نہ ہو جائے۔ اتفاق ایسا ہے کہ ہوائی سفر سے خوف زدہ ہونے کے باوجود، تقریبا ساری زندگی ان اڑن کھٹولوں میں ہی سفر کرتے گزری ہے۔ میں خیالوں کی دنیا میں گم ہی تھا کہ کہیں دور سے آتی ہوئی ایک آواز سنائی دی۔ اعلان ہو رہا تھا کہ وعدہ کی وہ جگہ آچکی ہے، جہاں میرے پہنچنے کا ایک وقت مقرر تھا لیکن اس وقت سے میں ناواقف تھا۔ اصطلاحی زبان میں اسے میقات کہتے ہیں۔ یعنی وہ مقام جہاں عازمینِ حج و عمرہ کو ایک خاص نیت کرنا ہوتی ہے کہ جس کے نتیجے میں وہ چند حلال چیزیں، اپنے لئے حرام کرلیتے ہیں اور یہ حرمت اس وقت تک قائم رکھتے ہیں جب تک وہ سارے مناسکِ حج و عمرہ ادا نہ کرلیں۔ اس فانی دنیا کے کروڑوں لوگ میقات کے اس مقام پر نیتِ حج کرنے کی خواہش دل میں رکھتے ہوئے، یہاں سے کوچ کر جاتے ہیں لیکن انہیں یہ سعادت نصیب نہیں ہوتی۔ دعا ہے اللہ تعالی ہر کسی کو اس سعادت کیلئے منتخب کرے۔ آمین۔
ہم نیو یارک سے پہلے قاہرہ پہنچے۔ وہاں پہ جہاز تبدیل کیا اور اب جدہ کی طرف رواں دواں ہیں۔ سفر ویسے بھی ایک قلبی ہیجان برپا کرتا ہے اور اگر وہ سفرِ حج ہو تو پھر اس اضطرابی کیفیت میں مزید اضافہ ہونا لازمی ہے۔ ہم بھی گزشتہ کئی ہفتوں سے بیچینی کی کیفیت سے دوچار تھے۔ مناسکِ حج کی درست ادائیگی کیلئے کئی کتابیں پڑھیں، درجنوں ویڈیو دیکھے، کئی لیکچر سنے، تقریبا ہر جاننے والے نے مقدور بھر ہدایات دیں۔ نوٹس بنائے۔ دعائیں یاد کرنے کی کوشش کی۔ اب چند دنوں بعد ہماری ساری تیاری کا عملی امتحان ہو گا۔ دیکھیں کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ ویسے اپنے فیل ہونے کا مجھے کافی حد تک اندازہ تو ہے اور اس کی وجہ بھی ابھی آپکے گوش گزار کرتا ہوں لیکن بہرحال اس سارے امتحان سے ہر صورت گزرنا ضروری تو ہے ہی۔ فیل ہونے کی وجہ کا تعلق اِس واقعہ سے ہے جو ہمیں مولانا محمد یوسف اصلاحی سنایا کرتے تھے۔ ملا علی قاری ہندوستان کے مشہور عالم تھے۔ انہوں نے حج کرنے کے طریقے پر ایک بہت مستند کتاب لکھی جو بہت عرصے تک حجاج کی رہنمائی کی سب سے بہتر کتاب مانی جاتی رہی۔ ملا علی قاری صاحب جب خود حج کیلئے پہنچے تو ان پر ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ انہوں نے الٹا طواف کرنا شروع کردیا۔ ایک صاحب نے انکی سمت درست کی اور تنبیہ کہا کہ اگر حج کیلئے آنا ہی تھا تو ملا علی قاری کی کتاب ہی پڑھ لیتے۔
مجھے لگتا ہے کہ اس ساری تفصیلی تیاری کے باوجود میری حالت بھی بالکل ایسی ہی ہوگی جو ملا علی قاری صاحب کی ہوئی تھی۔ ساری زندگی دنیاوی امتحانات دیتے گزری ہے۔ ایسے اہم امتحان بھی دئیے ہیں کہ جن پر پورے کیرئیر کا انحصار ہوتا ہے۔ تھوڑا بہت قلبی ہیجان تو برپا ہوتا ہی رہتا ہے لیکن اپنے رب کے حضور میدانِ عرفہ میں پیشی کے تصور سے ہی دل لرز رہا ہے۔ لوگ تو وہاں لاکھوں کی تعداد میں موجود ہونگے لیکن ہر فرد اپنے رب کے حضور انفرادی حیثیت سے کھڑا ہو کر معافی کی درخواستیں کر رہا ہوگا۔ اپنے سارے گناہ اس کے سامنے ایک فلم کی طرح چل رہے ہونگے۔ اپنے ہر کرتوت کی معافی تلافی کیلئے اسے اپنے آپکو اپنے رب کے رحم و کرم پر چھوڑنا ہوگا۔ کوئی آئیں بائیں شائیں نہیں چلے گی۔ قادر مطلق کے پاس تو سارے ثبوت پوری تفصیلات کے ساتھ موجود ہیں۔ وہ تو دلوں کے راز بھی جانتا ہے۔ اس کی پکڑ سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ اس کے رحم و کرم کے سہارے ہی سب کی جاں بخشی ہوگی۔
احرام کی اس حالت میں، کچھ دیر بعد ہم ان شااللہ دوبارہ زمین پر قدمِ رنجہ فرمائیں گے۔ اندازہ ہے کہ امیگریشن اور کسٹمز کی لائینیں طویل ہونگی۔ ائیرپورٹ سے نکلتے نکلتے کئی گھنٹے لگ جائیں گے۔ مزید تکالیف بھی پیش آسکتی ہیں کیونکہ لاکھوں لوگوں کیلئے مکمل انتظامات کرنا بیحد مشکل کام ہے۔ لیکن حج کی یہ ساری مشکلات کوئی معنی نہیں رکھتیں اگر ہماری مکمل معافی تلافی ہوجائے اور خدانخواستہ اگر ایسا نہ ہو سکا تو شاعر اجے سحاب کا یہ شعر صادق آجائے گا۔
کعبے سے لوٹ کر وہی سود و زیاں کی فکر
حج کر لیا مگر کبھی حاجی نہ بن سکا
ان ہی خیالات میں گم تھا کہ ہماری پرواز کے جدہ پہنچنے کا اعلان ہو گیا۔(جاری ہے)
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here