امریکی حکمران اوسلو معاہدے سے انکاری کیوں !!!

0
16
رمضان رانا
رمضان رانا

ویسے تو بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل دونوں بنی ابراہیم کے درمیان جنگ صدیوں سے جاری ہے کہ جس میں بنی اسرائیل بنی اسماعیل کو تسلیم نہیں کر رہا ہے کہ بنی اسماعیل بھی بنی ابراہیم ہے جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے کہ فلسطینی قوم جو عرب کہلاتے ہیں جو بنی اسماعیل بن جاتے ہیں جن کو حضرت یعقوب علیہ السلام ابن اسحاق علیہ اسلام کی نسل تسلیم نہیں کر رہے ہیں۔ جو آج فرعونیت کے نقش قدم پر چل نسل اسماعیل کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ بنی اسرائیل کا خاتمہ اپنے کردار و اعمال سے لازم ہوچکا ہے۔ جو اللہ پاک کا باغی ہے جس نے ماضی میں انبیائے اکرام کو شہید کیا ہوا ہے جس کی خدا تعالیٰ کے دربار میں معافی نہیں ہے۔ تاہم جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے بعد جب خلافت عثمانیہ عرب علاقوں میں کمزور پڑ گئی جس کے خلاف عربوں نے بغاوت برپا کرکے ایک سامراجی طاقت برطانیہ کا ساتھ دیا تو1948میں برطانیہ نے بلغاسٹ نامی معاہدے کے تحت اپنے مقبوضہ فلسطین کو یورپین صہونیت کے ہاتھوں بھیج دیا۔ صدیوں کے باشندے فلسطینیوں کو فلسطین سے ملک بدر کیا گیا جس کے خلاف دو عدد جنگیں بھی ہوئی اور جس میں صہونیت کی اہل یورپ اور امریکہ نے کھل کر حمایت کی ہے جس کی وجہ سے آج وہ ناجائز ریاست اسرائیل کے حکمران فرعون اور ہٹلر بن کر فلسطینیوں پر عذاب بن چکے ہیں جس نے ہزاروں فلسطینی بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو مار ڈالا ہے جس کا سلسلہ رکنے کا نہیں آرہاہے۔ جس کے ردعمل میں اقوام متحدہ میں کئی بار جنگ بندی کا اعلان ہوا ہے جس میں193میں سے143ممالک نے جنرل اسمبلی میں قرار داد کے ذریعے فلسطین کی حمایت کی ہے جبکہ حال ہی میں یورپین ممالک اسپین، ناروے، ہالینڈ، آئرلینڈ نے فلسطین کو ایک آزاد اور خودمختار ریاست تسلیم کرلیا ہے جو اب193ممالک میں تقریباً143ممالک کی تعداد ہوچکی ہے۔ جو فلسطین کو ایک آزادانہ خودمختار ریاست تسلیم کرتے ہیں جس میں روس، چین، بھارت، برازیل، انڈونیشیا، ترکی، سائوتھ افریقہ، ہنگری، سلواکیہ، رومینیا، چیک ریپبلک، ارجنٹائن کے علاوہ تمام تقریباً ممالک افریقہ، سائوتھ اور سنٹریل امریکہ قابل ذکر میں جبکہ امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، جاپان آسٹریلیا، کینیڈا، سائوتھ کوریا وغیرہ نے اب تک تسلیم نہیں کیا ہے۔یہ جانتے ہوئے امریکہ نے1993میں اوسلو معاہدے کے تحت فلسطین کی آزادی کے لئے معاہدہ کیا تھا جس کے ثالث صدر بل کلنٹن تھے جنہوں نے اسرائیلی وزیراعظم نتھن یاہو کی معاہدے سے انحراف کی وجہ سے ملاقات سے انکار کردیا تھا جن کے اشارے پر معاہدے میں حصہ لینے والے اسرائیلی وزیراعظم یا تک روبین کو اسرائیلی دہشت گردوں نے قتل کردیا تھا تاکہ امریکی ثالثی میں اوسلو معاہدے کو تسلیم نہ کیا جائے جو ہوا جس پر امریکہ اب تک بے بس نظر آیا ہے۔ لہذا امریکہ کو اسرائیل کی کوئی ریاست کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ بہرحال اسرائیل دنیا کے لئے خطرے کا باعث بن چکا ہے جس کی وجہ سے کوئی بھی ہولناک جنگ چھڑ سکتی ہے جو آج امریکی عوام پر بوجھ بنا ہوا ہے جس کو امریکی ٹیکس دینے والی عوام اب تک300بلین ڈالر بطور امداد دے چکے ہیں جس میں حال ہی میں26بلین کی ادائیگی بھی ہے جو کسی بھتہ خوری سے کم نہیں ہے جبکہ امریکی عوام مہنگائی، بے روزگاری اور شدید مالی مشکلات میں مبتلا ہیں جن کو اپنے اخراجات برداشت کرنا مشکل ہوچکا ہے۔ جس کے باوجود امریکی صدر جوبائیڈن امریکی عوام کی پرواہ کئے بغیر امریکی خزانے کا منہ کھول کر اسرائیلی حکمرانوں کی مدد کر رہا ہے جس سے روز فلسطینی عوام کا قتل عام جاری ہے جس کے ردعمل میں امریکی درسگاہوں میں طلبا احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں کہ جن کا مطالبہ ہے کہ فلسطینی عوام پر جاری ظلم وستم، بربریت کا سلسلہ بند کیا جائے۔ اوسلووں صدمے کے تحت فلسطین کو آزاد کیا جائے۔ اسرائیلی وزیراعظم نتھن یاہو کو عالمی عدالت کے حکم کے مطابق گرفتار کرکے سخت سے سخت سزا دی جائے۔ جس میں امریکی حکمران اپنے اوسلو معاہدے پر عمل کرے جس سے وہ انکاری بنا ہوا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here