آئر لینڈ کے بعد یورپ کے دو بڑے ممالک ناروے و سپین نے فلسطین کو باضابطہ ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ان کے اعلان کو مسلم دنیا نے خوش آئند قرار دیا جبکہ امریکہ نے حمایت نہ کرنے اور اسرائیل نے ناگواری کا اظہار کیا ہے۔آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والے ممالک کی مجموعی تعداد 146 ہو چکی ہے۔اقوام متحدہ کا نظام اگر ویٹو کی بجائے جمہوری اقدار پر استوار ہوتا تو آج فلسطینی ریاست کو اقوام متحدہ خود تسلیم کر چکی ہوتی۔ اس وقت اقوامِ متحدہ میں فلسطین کی حیثیت ایک مبصر کی ہے۔ ریکارڈ بتاتا ہے کہ 2011 میں فلسطین نے اقوامِ متحدہ کی مستقل رکنیت کے لیے قرار داد جمع کروائی تھی لیکن اس درخواست کو سکیورٹی کونسل میں حمایت حاصل نہ ہو سکی۔ فلسطینی نمائندہ اب بھی اقوام متحدہ میں ہونے والے مباحثوں میں حصہ لے سکتا ہے مگر اسے پیش کی گئی قراردادوں پر ووٹ دینے کی اجازت نہیں۔ 2012 میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو بطور مبصر ریاست قبول کیا تھا اور غزہ و غربِ اردن میں اس فیصلے کو سراہا گیا ۔ تاہم اسرائیل اور امریکہ اقوام متحدہ کے اس فیصلے پر تنقید کرتے رہے ہیں۔اقوامِ متحدہ کے اس فیصلے کے بعد فلسطین کو متعدد بین الاقوامی تنظیموں کا رکن بننے کی اجازت مل گئی ، اس سے فلسطینیوں کی آواز زیادہ موثر ہوئی۔ فلسطینیوں کی سفارتی طاقت بڑھی اور وہ دیگر پلیٹ فارمز پر قرادادیں پیش کرنے اور ان پر ووٹ دینے کے بھی قابل ہوئے۔اقوام متحدہ کے193 ممبر ممالک میں سے اب تک 140 فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کر چکے ہیں۔ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے والوں میں 22 ممالک پر مشتمل عرب لیگ، 57 ممالک پر مشتمل اسلامی تعاون تنظیم اور 120 ممالک پر مشتمل نان الائنڈ موومنٹ کے ممبر بھی شامل ہیں۔حالیہ دنوں آسٹریلیا نے بھی عندیہ دیا ہے کہ وہ دو ریاستی حل کے عمل کو تیز کرنے کے لیے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر سکتا ہے۔ اسرائیل کے وزیر خارجہ نے اپنا رد عمل دیا ہے۔ اسرائیل کاٹز کا کہنا ہے کہ میں آئرلینڈ اور ناروے کو ایک واضح پیغام دے رہا ہوں کہ اسرائیل ان لوگوں کے خلاف پیچھے نہیں ہٹے گا جو اس کی خودمختاری کو نقصان پہنچاتے ہیں اور اس کی سلامتی کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ اگر سپین نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اپنے ارادے کو تبدیل نہ کیا تو اس کے خلاف بھی ایسا ہی قدم اٹھایا جائے گا۔اس کے جواب میں ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سانشیز کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو ابھی تک کان نہیں دھر رہے ہیں۔ وہ اب بھی ہسپتالوں اور سکولوں پر بمباری کر رہے ہیں اور خواتین اور بچوں کو بھوک اور سردی کے حوالے کر کے سزا دے رہے ہیں۔ غزہ میں اسرائیلی سفاکیت وہ فوری وجہ بن رہی ہے جس نے عالمی برادری کو مسئلہ فلسطین پر ہمدردانہ انداز میں سوچنے کی ترغیب دی ہے ۔1988 میں فلسطینیوں کی مرکزی نمائندہ تنظیم فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) نے سب سے پہلے فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان کیا تھا۔عملی طور پر فلسطینیوں نے مقبوضہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں میں فلسطینی اتھارٹی کے ذریعے خود مختاری کو محدود کر رکھا ہے۔2007 میں غزہ کی پٹی کا کنٹرول پی اے سے حماس کے ہاتھوں میں چلا گیا تھا۔ اقوام متحدہ دونوں علاقوں کو اسرائیل کے زیر قبضہ اور ایک سیاسی اکائی پر مشتمل سمجھتی ہے۔اسرائیل فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کرتا اور نیتن یاہو حکومت مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت کرتی ہے۔ فلسطینی پچھلے چھہتر سال سے آزادی کی جدو جہد کر رہے ہیں۔اس دوران ہزاروں شہید ہوئے۔فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن مذاکرات 1990 کی دہائی میں شروع ہوئے تھے اور اس کے نتیجے میں اس مسئلے کا دو ریاستی حل تجویز کیا گیا تھا۔تاہم امن مذاکرات کا عمل 2000 کی دہائی میں سست روی کا شکار ہوگیا اور پھر واشنگٹن میں2014 میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ہونے والی بات چیت ناکام ہوگئی۔وہ ممالک جو اسرائیل سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں انہیں انسانی ہمدردی اور اسرائیل کی دوستی میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑ رہا ہے۔اسرائیل کے حامی ممالک کا کہنا ہے کہ فلسطین 1933 میں طے کیے گئے مونٹیویڈیو کنوینشن پر پورا نہیں اترتا جس کے تحت کسی بھی قوم کو ایک ملک تسلیم کیا جاتا ہے ۔ دس مئی 2024 کواقوام متحدہ کے 193 ممالک میں سے 143 ممالک نے فلسطین کو اقوام متحدہ کا رکن بنانے کی حمایت میں ووٹ دیا تھا۔ یہ ممالک اپنے عمل سے نہ صرف فلسطین کے لیے علامتی حمایت کا اعلان کر رہے ہیں بلکہ ان کے اس فیصلے سے جنگ بندی کے لیے شروع کیے گئے سیاسی عمل کو بھی تقویت مل رہی ہے۔عرب ریاستوںکا کہنا ہے کہ وہ جنگ بندی کے بعد غزہ کی نگرانی کریں گی اور اس کی تعمیر میں بھی مدد کریں گی لیکن اس عمل کے بدلے میں مغربی دنیا فلسطین کو ایک ریاست تسلیم کرے۔اس تناظر میں ناروے، آئرلینڈ اور سپین کے اس فیصلے کو ایک سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرنے کے اعلانات سے اگرچہ غزہ کی صورتحال میں فوری تبدیلی کا امکان نہیں لیکن اسے اسرائیل اور اس کی بلا مشروط حمایت کرنے والی عالمی طاقتوں کی سیاسی تنہائی کے مظاہرے کے طور پر اہمیت حاصل ہو رہی ہے۔
٭٭٭