خطے میں سنگین معاشی بحران کی آہٹ!!!

0
51

آئی ایم ایف کی ورلڈ اکنامک آوٹ لک رپورٹ نے رواں برس عالمی معیشتوں میں بد ترین گراوٹ کی پیش گوئی کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق عالمی پیداوار ی نمو 4.4 فیصد سے کم ہوکر 1.7 فیصد ہونے کا اندیشہ ہے۔پاکستان کیلئے تشویشناک امکان یہ ہے کہ اسکی شرح نمو 4.3 فیصد سے گر کر محض 2 فیصد ہو سکتی ہے۔ظاہر ہے پیداواری عمل سکڑنے اور آمدن میں کمی فی کس آمدن پر منفی انداز سے اثرات دکھائے گی ۔ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافہ اس صورتحال میں نئے مالیاتی بحران پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے ۔ پاکستان ہی نہیںیوکرین میں جنگ کے اثرات اور مسلسل اقتصادی چیلنجوں کی وجہ سے پورے جنوبی ایشیا میں ترقی کا عمل ناہموار نظر آ رہا ہے، شرح نمو پہلے سے اندازے سے کم رہے گی۔ عالمی بینک نے اپنی ششماہی علاقائی اپ ڈیٹ میں کہا ہے کہ خطے میں 2022 اور 2023 میںجو اضافہ دیکھا جا رہا تھا اسے ریورس گیئر لگ چکا ہے ۔ جنوب ایشیا ئی ممالک پہلے ہی اشیا کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، سپلائی میں رکاوٹوں اور مالیاتی شعبوں میں کمزوری سے دوچار ہیں۔ یوکرین میں جنگ ان چیلنجوں کو مزید بڑھا رہی ہے، افراط زر میں اضافہ، مالیاتی خسارے میں اضافہ اور کرنٹ اکاونٹ بیلنس کوجنگ بگاڑ رہی ہے۔اگرچہ بعض ملکوں میں جی ڈی پی کی نمو مستحکم ہے لیکن خطے کے تمام ممالک کو آگے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ حال ہی میں بنگلہ دیش کی طرف سے آئی ایم ایف سے چار ارب ڈالر قرض کی درخواست کو اسی پہلو سے دیکھا جا رہا ہے۔ بھارت میں لیبر مارکیٹ کی نامکمل بحالی اور افراط زر کے دباو کی وجہ سے ڈومیسٹک لیبر کا استعمال محدود ہو جائے گا۔ایندھن کی بڑی درآمدات اور روس اور یوکرین سے سیاحوں میں کمی کی وجہ سے مالدیپ کو خطرات کا سامنا ہے۔ سری لنکا میں مالیاتی اور بیرونی عدم توازن کی وجہ سے معاشی حالت انتہائی غیر یقینی ہے۔ افغانستان میں خوراک کی زیادہ قیمتیں خوراک کے عدم تحفظ کو بڑھا سکتی ہیں۔ موجودہ ماحول میں پاکستان کو درپیش چیلنجوں میں سے ایک اس کی توانائی کی سبسڈی تھی ۔ بنگلہ دیش کو اپنی برآمدات کے لیے یورپ سے کم آرڈر ملنے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جنگ اور ایندھن کی قیمتوں کے اثرات خطے کو ایندھن کی درآمدات پر انحصار کم کرنے اور ایک سبز، لچکدار اور جامع ترقی کے راستے پر منتقلی کے لیے انتہائی ضروری محرک فراہم کر سکتے ہیں۔ جنوب ایشیائی ممالک کو ایندھن کی غیر موثر سبسڈی سے دور رہنا چاہیے جو امیر گھرانوں کو فائدہ پہنچانے اور عوامی وسائل کو ختم کرنے کاباعث بنتی ہے۔ پاکستان اور دیگر ممالک کو بتدریجٹیکس لگا کر سبز معیشت کی طرف بڑھنا چاہیے جو ماحولیات کو نقصان پہنچانے والی مصنوعات پر ٹیرف لگائے۔ لچک پیدا کرنے کے خواہاں اسٹیک ہولڈرز کے لیے پہل کام خطے میں خطرے کا مکمل احساس کرنا ہے۔ ایسا ماحول اور طریقہ مشاہدے مین رکھنا ہو گا جس میں عالمی اور مقامی خطرات ایک دوسرے کے ساتھ ملتے ہیں.ساوتھ ایشیا رسکس لینڈ سکیپ ڈیٹا کے مطابق2018 کے عالمی خطرات پرسیپشن سروے اور 2019 کے تحتخطے میں – “پانی کا بحران” – ظاہر ہو سکتا ہے جس سے زراعت کو نقصان کا سامنا ہو گا ۔ایسا ہوا تو خوراک کی قلت پیش آ سکتی ہے۔ مسئلے کی مقامی حرکیات، بشمول موسمیاتی تبدیلی، پانی کی سیاست اور کمی، حکومتوں کے درمیان ہم آہنگی کے خطرات کی نوعیت اس وقت آتی ہے جب خطہ ترقی کر رہا ہو۔ خطے کے ممالک تیزی سے اور زیادہ جیو پولیٹیکل اثر و رسوخ استعمال کرنے کی تلاش میں ہوں۔خطے کے پانچ ممالک میں سے ہر ایک میں معاشی خطرات بڑھ رہے ہیں، بنگلہ دیش،بھارت، نیپال، پاکستان اور سری لنکا۔ یہ خطرات بنیادی طور پر ماحولیاتی خدشات سے متعلق ہیں اورحکومت کے لئے چیلنجز کی نشاندہی کرتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی معاشی ترقی مختلف مسائل کی وجہ سے متاثر ہوتی رہی ہے جن میں سیاسی عدم استحکام، غیر ملکی قرضوں کا بوجھ، ناقص برآمدات اور زیادہ درآمدات شامل ہیں۔ کئی برسوں سے اقتصادی پالیسیوں پر عملدرآمد نہ ہونا بھی اس میںشامل ہے۔پاکستان بار بار معاشی بحرانوں کا شکار رہا ہے۔ مہنگائی، کرنٹ اکاونٹ اور تجارتی خسارے، غیر ملکی ذخائر میں کمی، اور کرنسی کی قدر میں کمی ان دنوں دوبارہ ان مسائل کا سامنا ہے۔حیرت ہے کہ ہر نوع کے وسائل موجود ہونے کے باوجود پاکستانی معیشت کی سست روی کی وجوہات کیا ہیں؟ پاکستان کی معیشت کی سست ترقی کی بنیادی وجہزرعی شعبے کی غیر مستحکم کارکردگی ہے۔ پاکستان ایک زرعی معیشت ہے جس کا بہت زیادہ انحصار مون سون پر ہے۔پھرصنعتی اور سروس سیکٹر کی ترقی کا فقدان، غیر ملکی قرضوں پر بڑھتا ہوا انحصار اورسیاسی استحکام کا فقدان۔غیر ملکی کرنسی کے ذخائر میں کمی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ساتھ پاکستان معاشی تباہی کے دہانے پر ہے ۔کچھ حلقں کے مطابق سری لنکا کی معاشی تنزلی کی طرح پاکستان بھی اسی راہ پر گامزن ہے۔چند ہفتے قبل اسٹیٹ بینک آف پاکستان (SBP) نے حکومت کو ایک SOS بھیجا ہے کہ گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر ملکی درآمدات کی صلاحیت پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہو رہی ہے، آئی ایم ایف سے قرض کی قسط میں تاخیر سے معاملات مزید پریشان کن ہو رہے ہیں۔حکومت اور مالیاتی شعبے سے متعلق اداروں کو بگڑتی صورت حال کے بارے میں فوری موثر اقدامات کی ضرورت ہے ۔ایسا کرنے میں تاخیر کا نتیجہ ناقابل تلافی نقصان کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here