فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ!!!

0
56

محترم قارئین! ہجرت سے قبل اور ہجرت کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جو کارنامے اسلام کے لئے پیش کئے تاریخ صحابہ علیھرالرضوان میں ان کی مثال نہیں پیش کی جاسکتی۔ اسلام لانے کے بعد تیرہ برس تک مکہ مکرمہ میں کفار کی طرف سے سزائیں اور تکلیفیں برداشت کرتے رہے۔ اور رحمت عالم کی نصرت وحمایت میں اپنی جان ومال کے ساتھ سینہ سپر رہے۔ پھر وہ وقت آیا کہ ہجرت کی رات رحمت عالمۖ کو اپنی پشت پر سوار کرکے اندھیری رات میں نوکیلے پتھروں کی چٹانوں پر چڑھتے ہوئے”غارثور” میں پہنچے اور اپنی جان کی بازی لگا کر غار میں پہلے خود داخل ہوئے اور اپنے بدن کے کپڑے پھاڑ پھاڑ کر غار کے تمام سوراخوں کو بند کیا۔ پھر محبوب خدا کو غار میں لے جا کر اپنے رانوں پر سراقدس رکھ کر سُلا دیا۔ اور خود ایک سوراخ پر اپنی ایڑی لگا کر بیٹھ گئے۔ سوراخ کے اندر سے سانپ نے بار بار آپ کی ایڑی مبارکہ کو ڈسا اور کاٹ کھایا۔ مگر آپ نے سوراخ سے اپنی ایڑی نہیں ہٹائی۔ یہاں تک کہ درد سے بے قرار ہو کر آپ کے آنسو رحمت عالمۖ کے رخسار مبارک پر ٹپک پڑے۔ اور آپۖ خواب راحت سے بیدار ہوئے اور اپنا لواب دہن مبارک لگا دیا۔ جس سے فی الفور آپ آپ کو شفا مل گئی پھر مدینہ منورہ پہنچ کر اپنی پوری زندگی تمام مشاہد میں حاضر رہے۔ اور بڑے بڑے کارہائے نمایاں انجام دیے۔ آپ کے اسلامی کارناموں کو بیان کرنے لئے تو ایک طویل دفتر بھی ناکافی ہے۔ مگر برکت کے لئے چند کا تذکرہ پیش خدمت ہے۔ ٢سنہ وجنگ بدر میں حیمہ نبوی کی حفاظت کرتے رہے اور آپ کے فرزند عبدالرحمن بن ابی بکر جب کفار کی طرف سے جنگ کے لئے تو آپ نے ننگی تلوار لے کر بیٹے کو للکار اور مقابلہ کے لئے خود آگے بڑھے۔ مگر رحمت عالمۖ کی رحمت نے یہ گوارہ نہ کیا باپ کی تلوار بیٹے کے خون سے آلودہ ہو۔ اس لئے آپ کو عبدالرحمن کے ساتھ لڑنے سے منع فرما دیا۔٣سنہ جنگ اُخُد میں شریک ہو کر انتہائی جان بازی کے ساتھ کفار سے جنگ کی اور جب حضور سید دو عالمۖ زخمی ہو کر اُخُد کے غار میں تشریف لے گئے تو سب سے پہلے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ علیہ ہی حضور کی خبر گیری کے لئے غار میں پہنچے۔ ٥سنہ جنگ خندق میں فوج کے ایک دستہ کے سپہ سالار رہے اور جس جگہ نے خندق کی حفاظت کی تھی وہاں ایک مسجد تعمیر ہوئی جو آپ کے نام سے منسوب ہے۔ ٦سنہ میں حدیبیہ میں جب عروہ بن مسعود تقضی جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے کفار کے جاسوس بن کر آئے اور دوران گفتگو حضور علیہ السلام کی داڑھی مبارکہ پکڑ لی تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اسے بردشت نہ کرسکے۔ اپنی تلوار کا دستہ اس کے ہاتھ پر مار کر اس کا ہاتھ ہٹا دیا۔ اور عروہ بن مسعود کی اس بات کے جواب میں کہ”اے محمد! آپ کے ساتھی جنگ کے وقت تمہیں چھوڑ کر چلے جائیں گے۔فرمایا! یعنی اپنی دیوی لات کے پیشاب کا مقام چوس کیا ہوسکتا ہے کہ ہم محبوب خداۖ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں۔ یہ ناممکن ہے عمر وہ یہ بات سن کر تعجب میں ڈوب گیا کہ قریش کے اتنے بڑے سردار کو اتنا سخت جواب کہنے لگا! اسے ابوبکر اگر مجھ پر تیرا کیا احسان نہ ہوتا تو میں تمہیں پوچھتا کہ آپ یہ بات کیسے کہتے ہیں۔ ٧سنہ جنگ خیبر میں شریک ہوئے۔٨سنہ میں فتح مکہ میں شریک ہوئے۔اور اپنے گھر کا سارا سامان پیش کیا۔ جنگ تبوک میں حضور علیہ السلام کی رفاقت کا شرف بھی حاصل رہا۔ اسی سال آپ کو امیر الحج بنایا گیا۔ اور آپ اور حضرت علی رضی اللہ عنھا نے متواتر تین دن تک یہ آواز بلند سورہ برات کا اعلان فرمایا شرکین کا مسجد حرام میں داخلہ بند اور ننگے طواف کعبہ کرنے کی ممانعمت کی۔٩سنہ میں حضورۖ کی بعیت میں حج ادا کیا جو حجتہ الوداع کے نام سے مشہور ہے۔
11سنہ حضور اقدسۖ کے ایام علالت میں حضورۖ کے حکم سے نبوت کے مصلیٰ امامت پر نماز پڑھاتے رہے۔ اسی سال حضورۖ کا وصال مسلمانوں کے لئے ایسا جانکاہ اور ہوشرباء حادثہ فاجعہ تھا کہ بہت سے صحابہ علیھم الرضوان شدت غم سے بے ہوش ہوگئے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے جری اور بہادر شخص کا یہ حال تھا کہ ننگی تلوار لے کر چکر لگاتے تھے اور کہتے پھرتے تھے کہ جو شخص یہ کہے گا کہ حضور علیہ الصلواة والسلام کی وفات ہوگئی۔ میں اسی تلوار سے اس کی گردن اڑا دوں گا۔ مگر ایسے وقت میں بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہوش وحواس بجا اور درست تھے چنانچہ نہایت ہی سکون کے ساتھ آپ حضور اقدسۖ کی چارپائی کے پاس مودبانہ حاضر ہوئے۔ اور چادر مبارک اٹھا کر انتہائی گرمجوشی کے ساتھ پیشانی اقدس پر بوسہ دیا اور کہا”میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ آپ موت وحیات دونوں حالتوں میں طیب و طاہر ہیں۔ اس کے بعد آپ مسجد نبوی میں تشریف لے گئے اور صحابہ کرام کے مجمع میں آپ نے ایک خطبہ پڑھا۔ اس خطبہ کو سن کر سب کے ہوش وحواس درست ہوگئے اور سب کو تسلی ہوگئی۔ پھر صحابہ کرام علیھم الرضوان نے آپ رضی اللہ عنہ کی بیعت کی۔امیر المئومین ہو جانے کے بعد سب سے پہلے آپ نے حضر اسامہ بن زید کے اس لشکر کو جہاد کے لئے روانہ فرمایا جس کا جھنڈا حضور رسالت مآبۖ نے باندھا تھا۔ پھر مسلمہ الکذاب اور زکواة کی فرضیت کا انکار کرنے والے مرتدین سے مسلسل نو ماہ جہاد کرکے ان کا قلمع قمع کیا۔اس کے بعد روم اور فارس کی سلطنتوں سے جہاد شروع کیا اور عراق وشام کے بہت سے علاقے فتح کئے۔ تریسٹھ برس کی عمر میں دو برس تین ماہ گیارہ دن مسند خلافت پر ممکن ہو کر٢٢جمادی الثانی13سنہ میں وصال فرمایا۔ اللہ تعالیٰ آپ کے فیضان سے وافر حصہ عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here