فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
64

محترم قارئین! رمضان المبارک کی آمد پر مسجدوں میں رونق بڑھ جاتی ہے۔ عمومی طور پر لوگوں میں تقویٰ وطہارت کی کثرت ہوجاتی ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے ہونی بھی چاہئے لیکن جیسے رمضان المبارک گزرتا ہے۔ مسجدوں کی وہ رونق ختم ہوجاتی ہے۔ معمول کے نمازی رہ جاتے ہیں اس بات کی مذمت پر مبلغ کرتا ہے۔ لیکن ہم ہیں کہ ہماری صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اسی طرح بے نمازی، سود خور، شرابی، زانی، بدکار اور حرام خور ہوجاتے ہیں۔ اپنی کی ہوئی محنت اپنے ہی ہاتھوں ضائع کردیتے ہیں۔ بازاروں کی رونقیں اسی طرل بحال ہوجاتی ہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے کوئی قید سے چھوٹ کے آیا ہو۔حالانکہ قید تو شیطان تھا۔ افسوس صد افسوس! ہم نے کلمہ تو پڑھ لیا لیکن اس کی ذمہ داری کو نہیں سمجھا پانچ وقت کی نماز ہر روز ہر مسلمان مردو عورت عاقل وبالغ پر فرض ہے۔ اور خوف خدا ذہن میں بٹھانا ضروری ہے۔ تاکہ ہر برائی سے بچا جاسکے۔ باقی عیدالفطر کی خوشیاں سب اہل اسلام کو نصیب ہوں۔ اور ان خوشیوں کی بابرکت گھڑیوں کے صدقے اللہ تعالیٰ ہمیں سدا خوش رکھے۔جی، ایم، سی فائونڈیشن کی طرف سے چھپنے والا یہ ہفتہ وار آرٹیکل مسلک اہل سنت وجماعت کا پاسبان اور عکاس ہے۔ بس نبی پاکۖ سے ہر چیز سے بڑھ کر محبت کرنے کے بعد نماز کی پابندی انتہائی ضروری ہے اور ہر موسم اور ہر مہینہ میں ضروری ہے۔ یہ کام وہی کرسکتا ہے جس کے دل میں خوف خدا آجائے۔ تو پھر یہ سب چیزیں آسان ہوگئی یعنی آسان ہوجاتی ہیں۔ اور خوف خدا کا انعام بھی بہت زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ترجعہ: جواب کے حضور میں کھڑے ہونے سے ڈرتا ہے اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔(سورہ رحمن پارہ نمبر27)اس آیت کریمہ کے شان نزول میں حضرت عطاء سے حکم منقول ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایک روز قیامت کے بارے میں سوچنے لگے تصور میزاں، جنت دوزخ وغیرہ کے بارے سوچتے گئے اور قیامت کے حالات پر غور کرتے کرتے لرز اٹھے اور کہنے لگے کاش کہ میں گھاس کا تنکہ ہوتا، جانور کھا جاتے یا میں پیدا ہی نہ ہوتا۔ گویا آپ رضی اللہ عنہ رومی علیہ الرحمتہ کے اس شعر کے مطابق فرما رہے تھے۔
کاش کہ ماور نہ زادے مرمرا
یا مرا شیر بخور دے درچراہ
کاش مجھے ماں نہ جنتی اور میں پیدا نہ ہوتا یا مجھے کوئی شیر کھا گیا ہوتا اور میرا نشان نہ ہوتا۔ یہ سوچتے سوچتے بے قرار اور اضطراب قیامت کی ہیبت کا تصور کرتے کرتے انتہائی پریشان تھے کہ جبریل امین یہ آیہ کریمہ لے کر حاضر خدمت ہوئے اور حضورت پاکۖ سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یہی حال حضرت علی شیر خدا کا تھا کہ جب وضو فرماتے تو رنگ زرد پڑ جاتا اور جب مصلے پر تشریف لائے تو لرزنا شروع کردیتے۔ تو یقیناً ایسے لوگوں کے لئے ہی دو جنتیں ہیں۔ وہ دو جنتیں جنت نعیم اور جنت عدن ہیں۔ جنت کا لغوی معنیٰ ہی معتبر ہے یعنی باغ وگلستان یعنی جو لوگ خوف میں زندگی گزارتے رہتے ہیں، ان کو دو جنتیں ملتی ہیں۔ مقام اگراسم ظرف ہو یعنی ظرف مکان ہو تو معنیٰ یہ ہوں گے کہ جو لوگ ہر وقت اس جگہ سے خوف زدہ رہتے ہیں کہ جہاں کھڑا کرکے حساب لیا جائے گا اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔ اور اگر مقام سے مصدرمیمی مراد ہو تو اس کے دو مفہوم ہیں۔ ایک یہ کہ جو لوگ ہر و قت اس بات سے خوف زدہ رہتے ہیں کہ ان کا رب ان کی نگرانی فرما رہا ہے۔ وہ ان کے افعال واقوال دیکھ رہا ہے اور پوری طرح باخبر ہے، وہ ڈرتے ہیں کہ کوئی ایسی بات نہ ہوجائے جس کے باعث ان کا رب ان پر ناراض ہوجائے۔ دوسرا مفہوم یہ ہو گا کہ وہ لوگ جو اپنے رب کے حضور کھڑا ہونے سے ہر وقت ڈرتے رہتے ہیں۔ دو جنتوں کے مستحق ہیں۔ چونکہ پہلے بتایا جاچکا ہے کہ جنت کا لغوی معنٰی ہی معتبر ہے یعنی باغ وگلستان اور یہی زیادہ موزوں ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہتے ہیں اور خوف خدا میں زندگی گزارتے ہیں، ان کو جنات میں دو باغ عطا ہوں گے۔ ایک وہ جس میں ان کی رہائش ہوگی۔ یہاں وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہیں گے۔ دوسرا وہ جہاں ان کی عام نشست ہوگی۔ دوست احباب سے ملاقاتیں ہوا کریں گی۔ عبیش ونشاط کی محفلیں ہوں گی یا یوں کہہ لیں کہ سُنی چونکہ محفل میلاد کے عادی ہیں۔ وہ میلاد کیا کریں گے علامہ بغوی نے ایک حدیث مبارکہ نقل کی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضور علیہ الصلوٰة السلام نے فرمایا: جس مسافر کو راہزنوں کا خوف ہوتا ہے۔ وہ سوتا نہیں بلکہ چلتا رہتا ہے اور جو رات بھر چلتا رہتا ہے، وہ اپنی منزل کو پا لیتا ہے۔ خبردار! اللہ کا سامان بہت قیمتی ہے، خبردار! اللہ کا سامان بہت قیمتی ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں حقائق کوسمجھ کر عمل کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here