سیرت النبی ۖ کے سو پہلو!!!

0
196
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

1۔چلتے تو آرام ،سکون اور پر وقار انداز اختیار فرماتے۔2۔چلتے وقت زمین پر پیر گھسیٹ کر نہیں چلتے تھے ۔3۔ ہمیشہ اپنی نگاہ نیچے رکھتے ۔4۔ سلام کرنے میں پہل فرماتے ،کوئی سلام کرنے میں آپ سے سبقت نہ لے پاتا تھا۔5۔ کوئی مصافحہ کرتا تو اس کے ہاتھ کھینچنے سے پہلے اپنے ہاتھ کو اس کے ہاتھ سے کھینچتے نہیں تھے۔6۔ ہر ایک کے ساتھ اس طرح پیش آتے کہ وہ گمان کرتا تھا کہ مجھ سے زیادہ انہیں کوئی عزیز نہیں ہے۔7۔ جب کسی کی طرف دیکھتے تو بادشاہانہ انداز اختیار نہیں فرماتے تھے۔8۔ہرگز لوگوں کے چہرے کی طرف آنکھیں لگا کر یعنی ٹکٹکی باندھ کر نہیں دیکھتے تھے۔9۔ اشارہ کرتے تو ہاتھ سے کرتے ،کبھی آنکھ یا آبرو سے اشارہ نہ فرماتے 10۔ تادیر خاموش رہتے ،جب تک ضرورت نہ ہوتی لبوں کو جنبش نہیں دیتے تھے۔ 11۔ جب کوئی آپ سے بات کرتا تو اس کی بات کو پوری توجہ سے سماعت فرماتے ۔ 12۔ جب خود کسی سے بات کرتے تو اس کی طرف متوجہ رہتے ،ادھر ادھر توجہ نہ فرماتے۔ 13۔ کسی کے ساتھ بیٹھتے تو جب تک وہ نہیں اٹھتا ،آپ اٹھنے میں پہل نہیں فرماتے تھے۔ 14۔ کسی محفل میں اٹھتے ،بیٹھتے خدا کو ضرور یاد کرتے تھے۔ 15۔ جب کسی محفل میں جاتے تو آخر میں بیٹھ جاتے ،کبھی صدر مجلس (اوائل)میں بیٹھنے کی خواہش نہ رکھتے تھے 16۔ مجلس میں اپنے لیے جگہ مخصوص نہیں کرتے تھے ،اور ایسا کرنے سے منع فرماتے تھے۔ 17۔ لوگوں کی موجودگی میں کبھی تکیہ نہیں لگاتے تھے۔ 18۔ آپ اکثر قبلہ رخ ہو کر بیٹھتے تھے۔ 19۔ جب کسی ناپسندیدہ شے کو دیکھتے تو اسے ان دیکھا قراردے دیتے تھے۔ 20۔ اگر کسی سے غلطی ہو جاتی تواسے نقل نہیں کرتے تھے۔ 21۔ کسی کوبات کرنے میں غلطی یالغزش ہوجاتی تو اس کا ماخذہ نہیں فرماتے تھے۔ 22۔ کسی سے ذاتی جنگ و جدل اور جھگڑا نہیں کرتے تھے۔ 23۔ کسی کی بات کو کاٹتے نہیں تھے،مگر یہ کہ وہ فضول بات ہوتی۔ 24۔ سوال کے جواب کا چند بار تکرار کرتے تاکہ سائل پر جواب مشتبہ نہ ہوجائے۔ 25۔ کسی سے غلط بات سنتے تو نہیں فرماتے تھیکہ فلاں نے یہ کیوں کہاہے ؟ ،بلکہ فرماتے کہ بعض لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ اس طرح کہہ رہے ہیں۔ 26۔ غریبوں کے ساتھ زیادہ اٹھتے بیٹھتے تھیاور ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا بھی کھا لیتے تھے۔(جاری ہے)
27۔ غلاموں کی دعوت کو بھی قبول کرلیتے تھے۔ 28۔ ہدیہ قبول کرتے ،اگرچہ ایک گھونٹ دودھ ہی کیوں ہو۔ 29 ۔صلہ رحمی میں سبقت فرماتے تھے۔ 30۔ اپنے رشتہ داروں پر احسان کرتے ،بغیر اس کے کہ انہیں دوسروں پر برتری دیں۔ 31۔ نیک کام کی تعریف اور تشویق دلاتے اور برے کام کی مذمت اور اس سے منع فرماتے تھے۔ 32۔ جس چیز میں لوگوں کی دین و دنیا کی مصلحت ہوتی ،اس کے کرنے کا کہتے اور مکرر فرماتے کہ یہ بات جو حاضر لوگ مجھ سے سن رہے ہیں ،غائب لوگوں تک پہنچائیں۔ 33۔ جو عذر پیش کرتا ،اس کے عذر کو قبول کرتیتھے۔ 34۔ ہرگز کسی کو حقیر شمار نہیں کرتے تھے۔ 35۔ ہرگز کسی کو گالی نہیں دیتے تھییا برے لقب سے نہیں پکارتے تھے۔ 36۔ ہرگز اپنے اطراف والوں اور متعلقین سے نفرت نہیں کرتے تھے۔ 37۔ ہرگز لوگوں کے عیب کی جستجو نہیں کرتے تھے۔ 38۔ لوگوں کے شر سے بچتے لیکن ان سے کنارہ کشی نہیں کرتے تھے،سب سے خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے۔ 39۔ کبھی لوگوں کی مذمت نہ کرتے تھے اور ان کی زیادہ تعریف بھی نہیں کرتے تھے۔
40۔ دوسروں کی جسارت پر صبر کرتیتھے،اور برائی کا نیکی سے بدلہ دیتے تھے۔
41۔ بیماروں کی تیمارداری کرتے تھے، اگرچہ وہ مدینہ میں دور ہی رہتے ہوتے
42۔اپنے صحابہ کا خیال رکھتے تھے اور ہمیشہ ان کا حال چال پوچھتے رہتے تھے۔
43۔ اپنے صحابہ کو بہترین نام سے آواز دیتے تھے۔
44۔ کاموں کی بابت اپنے صحابیوں سے بہت مشورہ کرتے تھیاور انہیں مشاورت کرنے کی تاکید کرتے رہتے تھے۔
45۔ اپنے صحابہ میں دائرہ بناکر بیٹھتے تھے ،اس طرح گھل مل کر بیٹھے ہوتے کہ اگر اجنبی آجاتاتو وہ جان نہیں پاتا تھا کہ ان میں ان کا پیغمبر ص کون سا ہے ۔
46۔اپنے صحابہ کے درمیان انس و محبت برقرار فرماتے تھے۔
47۔اپنے عہد و پیمان کے پکے تھے۔
48۔جب کسی فقیر کو کچھ دیتے تو اپنے ہاتھ سے دیتے تھے ،کسی دوسرے کے ذریعہ سے نہیں دیتے تھے۔
49۔اگر نماز کی حالت میں ہوتے اور کوئی آپ سے ملنے آجاتا تو اپنی نماز کو مختصر کردیتیتھے۔
50۔ اگر نماز کی حالت میں ہوتے اور کوئی بچہ رونے لگتا تو اپنی نماز کو مختصر کردیتے تھے۔
جاری ہے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here