روح کی ٹیوننگ!!!

0
73

اپنی شخصیت کی فائن ٹیونگ کے لیے ضروری ہے کہ ہماری شخصیت کو accommodate ہونا چاہئے ۔عربی زبان میں ایک لفظ (خلف )ہے جس کے بہت سے معنی نکلتے ہیں،عربی زبان جو کہ قرآن کی زبان ہے ،جنت کی زبان ہے ۔اس کی گہرائی کو سمجھنے کے لئے عربی سے واقفیت ضروری ہے ۔ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہماری اردو زبان میں بہت سارے عربی کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں لہٰذا ان کی گہرائی کو سمجھنے میں ہمیں زیادہ دقت پیش نہیں آتی ہے اس(خلف )سے ہی اختلاف کا عنصربھی نکلتا ہے اسی سے خلیفہ بھی بنتا ہے جیسے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفالرسول کہا جاتا ہے یعنی رسول کے بعد حکومت کی تمام ذمہ داریاں آپ پر تھیں، اسی لیے خلیفہ رسول کا لقب ملا ۔اللہ کے احکامات کو عمل میں لانے ،اس کو قائم کرنے اس کو پھیلانے غالب کرنے کی ذمہ داریاں اٹھائیں ،ان کے بعدحضرت عمر پھرحضرت عثمان اور حضرت علی نے اس ذمہ داری کو اٹھایااس لیے کہ اب وحی تو آنی نہیں تھی اور خلافت کو اسی طریقے پر قائم رکھنے کی جدوجہد جس طریق پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سکھا کر گئے تھے اختلاف کے بغیر ۔ اگر اختلاف پر غور کریں تو یہ خلف میں ہی اضافہ کرکے بنایا گیا ہے اس میں (ا ت ل)کا اضافہ ہوگیا ہے لیکن یہ اپنے اندر(خلف )کو چھپائے ہوئے ہیں یعنی کسی چیز کااختلاف یہ ظاہرکرتا ہے کہ اس کی کچھ اصل ہے ۔انسان کا ماضی اس کی ذات کا حصہ ہوتا ہے ہر انسان اپنا ایک الگ ماضی رکھتا ہے جو اس کے خاندان ،برادری ،والدین ،ٹیچر ،دوست ، رشتہ دار مل جل کر اس کی شخصیت بناتے ہیں یا اس کی شخصیت پر ان لوگوں کے رویے کے اثرات موجود ہوتے ہیں۔ ہر شے کی انسان کی نفسیات پر خاطر خواہ اثرات پڑے ہوئے ہوتے ہیں بظاہر وہ ان سب کو پیچھے چھوڑ آیا ہوتا ہے ۔اس لئے دنیا میں ہم جب مختلف طرح کے لوگوں کے ساتھ معاملات کر رہے ہوتے ہیں تو لوگوں سے شدید اختلاف کی نوعیت پیدا ہوسکتی ہے کیونکہ شخصیت کے بیک گرائونڈ کا ہمیں پتا نہیں ہوتا ہے لہٰذا انسانوں کو ڈیل کرتے ہوئے ان کے بیک گرائونڈ کو ضرور نگاہ میں رکھنا چاہئے اس سے اختلافات کے چانسز کم سے کم ہوجاتے ہیں ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے اس کی بہترین مثالیں ملتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر کسی کو ایک ہی طرح ٹریٹ نہیں کیا کرتے تھے بدو آتے اور چادر کھینچ کر سوال کرتے ہمیں دو اس میں سے جو اللہ نے تمھیں دیاہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مڑ کر دیکھتے مسکرا کر مدد کر دیتے ان کو ادب نہیں سکھایا کرتے، آپ جانتے تھے اس لئے ان کو ڈانٹا بھی نہیں کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ صحرا میں رہنے والوں کے دل سخت ہوتے ہیں،صحرا کی سختی وہاں کے لوگوں کی شخصیت میں آجاتی ہے۔ آپ صلی اللہ ہمیں سبق دے گئے ہیں کہ لوگوں کو ان کے حالات کے لحاظ سے ڈیل کروگے تو اختلافات کم سے کم ہوں گے اور غصہ بھی کنٹرول میں رہتا ہے۔ چائنیز ،عرب ،یونان میں پرانی فلاسفی آتی ہے کہ وہ گردے کے ساتھ جذبات کو جوڑتے تھے بنسبت دل کے،جذبات دونوں جگہ ہو سکتے ہیں لیکن ان کی پرانی فلاسفی ہے ہمارے یہاں بھی صبرکے عنصر کو گردے سے ہی منسلک کیا جاتا ہے،آج کل کے میڈیکل پوائنٹ آف ویوسے دیکھیں تو یہ بات بھی کسی قدر صحیح ثابت ہوتی ہے کیونکہ وہ بیماریاں جو گردے پر اثر کرتی ہیں ،انسان کو چڑ چڑا ، بدمزاج ، غصیلہ اور جذباتی بنا دیتی ہیں اور کسی حد تک جلد باز بھی ،جیسے شوگر کے مریض کا بھی یہی حال ہے ۔لیور جوکیمیکل پروڈیوس کرتا ہے اس میں گڑبڑ ہو جاتی ہے یعنی ہر طرح کی جذباتیت کو قابو میں رکھنے کے لئے گردے اور دل کے فنکشن کا صحیح ہونا ضروری ہے چاہے جسمانی ہو یا روحانی ،تو جہاں ہم اپنی جسمانی صحت کے لئے کوششیں کرتے ہیں دوائیں کھاتے ہیں ورزش کرتے ہیں اپنی روح کی ٹیوننگ کے لئے اپنے عمل کوسنوار سکتے ہیں، علم کی روشنی میں اللہ کے بندوں کو پہچاننا،سمجھنا اور پھر ان سے انٹریکٹ کرنا ۔ہمیں قرآن و سنت سے اس کی تعلیم ملتی ہے کہ لوگوں کو سمجھ کر ڈیل کرنے کی صلاحیت پیدا کرو ۔اس لیے کہ پھل دار درخت ہی جھکتا ہے اور اگر علم اور ایمان ہے تو اس کی فائن ٹیونگ کا اندازہ انسان کیاخلاق سے لگایا جا سکتا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here