زخمی وطن !!!

0
12
شبیر گُل

دسمبر کا مہینہ پرانے زخم تازے کرکے گزر جاتا ہے۔تاریخ کے تلخ واقعات سے سبق سیکھنے کی بجائے نئی بساط بچھائی جاتی ہے۔عوام دشمن فیصلے کئے جاتے ہیں جس سے ملک کمزور سے کمزور تر ھو رہا ہے۔ملٹری اسٹبشمنٹ کی سیاست میں مداخلت اور ریشہ دوانیاں جاری ہیں۔ آئین کی بے توقیری آئین کے امین کر رہے ہیں۔ پاکستان بے بسی کی عملی تصویر نظرآتا ہے ۔جہاں نہ کوئی نظریہ ہے نہ مستقبل ۔ ھم نے اپنے ہی ہاتھوں اسکا گلا دبا رکھاہے۔ہر شخص اس نظام سے زخمی ہے۔سسٹم سے مایوس ہے۔ ھم کتابوں میں پڑھتے اور سنتے آئے ہیں کہ پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے۔اسلامی اور فلاحی اسٹیٹ ہے۔قرار داد مقاصد جس کی بنیاد ہے ۔آئین اسلامی اور اسلام کا قعلہ ہے۔پاکستان اسلامی ممالک کا امام ملک ہے۔جو دو قومی نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آیا ۔اس کے وجود کا مقصد یہ تھا کہ ایک ایسی ریاست ھو جہاں آزادی سے سانس لے سکیں۔ ھمیں انصاف ۔ اور بہنیں،بیٹیاں جہاں مخفوظ رہ سکیں۔زندگی اپنی مرضی سے بسر کرسکیں۔ مگر چشم فلک نے اسے جرنیلوں ، ججوں ، درندے مخافظوں ۔ اور گندگی انڈوں کے ئاتھوں رسوا ھوتے دیکھا۔آج ہی کے دن ھمارا ایک بازو ھم سے کٹ گیا۔اسی دن دہشت گرد پشاور کے سکول میں گھس کر بچوں کو ذبیح کرتے ہیں ۔ لیکن ھم آج بھی اپنے مخافظوں کے ہاتھوں رسوا ھو رہے ہیں۔ ھم نے اپنے مخافظوں کو ننگی وڈیوز بناتے۔ بچے اغوا کرتے ۔ راتوں کو گھروں میں گھستے ۔بزرگوں کی مار پیٹ کرتے دیکھا۔ مہنگی زمینوں اور وسائل پر قبضہ کرتے۔ پارلیمنٹ کو ہائی جیک کرتے۔ اور عدالتوں کو ڈکٹیٹ کرتے دیکھا۔ پاکستان دو لخت ھوا۔ جمہوریت دفن ھوئی ۔ سسٹم مفلوج ھوا۔ ہر پیدا ھونے والا بچہ، جواں اور بوڑھا دولالھ کا مقروض ھوا۔ملک پر قبضہ مافیا۔ چینی مافیا۔ الیکٹیبلز اور چوروں کا تسلط رہا۔ھم آج تک اس بحث میں الجھے ہیں کہ اس مظلوم ملک اور مفلوک عوام پر کونسا نظام نافذ ھوگا۔ ملک پر ایک ٹولہ 2018 میں مسلط کیا گیا اسے ہٹا کر دوسرا ٹولہ 2024 میں مسلط کیا گیا۔ بار بار عوامی مینڈیٹ کا حشر کرنا ، الیکٹیبلز کے ذریعے من پسند لوگوں کو لانا۔ نجانے یہ عمل کب تک جاری رہے گا۔ ؟ اسٹبلشمنٹ میں بیٹھے فیصلہ سازوں کو سوچنا چاہیے کہ اس ملک پر جتنا انکا حق ہے اتنا ہی عوام کا ہے۔ عوامی مینڈٹ کو ملیا میٹ کرنے سے ادارے کمزور اور فاشزم مضبوط ھوتا ہے۔ ملک کی فلاح اور ترقی کے لئے اس بدمعاشی کو کہیں تو رکنا ہے۔؟ عوام کا بھی فرض ہے کہ ان لوگوں کو ووٹ کریں جو جمہوری روایات کے امین ہوں نہ کہ چور دروازوں سے اسٹبلشمنٹ کی چھتری کا سہارا لینے والوں کو۔ان تجربات نے ملک کمزور کیا ہے۔ ھم اصل مسائل کو پس پشت ڈالکر توشہ خانہ اور نکاح / عدت سے نہیں نکل سکے۔توشہ خانہ میں چوری تو سب نے کی ہے۔ ملک کو سبھی نے لوٹا ہے۔ سب کو قابل احتساب بنایا جائے۔ نہ کے سلیکٹڈ احتساب ۔ملک میں اندھیرنگری اور چوپٹ راج ہے۔ بجلی فراہم کرنے والی کمپنیاں تین روپے سے 36 روپے کی بجلی فراہم کررہی ھیں۔مہنگائی نے مڈل کلاس کو کرش کردیا ہے۔کوئی قانون ان پر لاگو نہیں ہوتا۔کوئی انکی باز پرس نہیں کرسکتا۔ڈیم کے لئے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے پیسے اکٹھے کئے آج تک کسی میں ہمت نہیں ھوئی کہ پوچھ سکے وہ پیسہ کہاں ہے۔قاضی فائز عیسی کے فیصلوں کو کوئی چیلنج نہئں کرسکا۔جنرل باجوہ نے جو کیا ۔ کوئی اس کا حساب نہیں لے سکتا۔ یہ فرعونوں کی ٹیم اور فرعونوں کا دور ہے۔طاقتور کے آگے نظام عدل بھی سجدہ ریز ہیں۔ پاکستان زخموں سے چور وہ وہ بدنصیب ملک ہے۔جسے روزانہ نوچا جارہاہے۔اسکے زخموں پر نمک پاشی کی جارہی ہے۔یہ ایک سسکتا لاشا ہے۔جس کے تڑپتے لاشے کو کتوں کے آگے ڈال دیا گیا ہے۔
یہ کتے اسے ہر طرف سے نوچ رہے ہیں۔
فوج ،عدلیہ اور حکمرانوں کی ہر صبح کا آغاز عمران خان اور ہر دن کا اختتام عمران خان سے ھوتا ہے۔
پی ٹی آئی absolutely not سے نکل کر صدر ٹرمپ پر تکیہ کئے بیٹھی ہے۔
کبھی یہ فوج کی حمایت میں آسماں سے قلابے ملاتے تھے۔ اور آج انکے کارکنان پوری دنیا میں فوج کو گالیاں اور لعن طعن کررہے ہیں ۔یورپ اور امریکہ کے ہائی آفیشلز کے ساتھ فوج کے خلاف بیانیہ بنایا گیا ۔ جسے ملٹی اسٹبلشمنٹ نے اپنی تعیں دبانے اور ذائل کرنے کی بیرون اور اندرون ملک کوششیں کیں۔ کسی حد تک اس میں کامیاب بھی رہے۔
2018 کا الیکشن بھی فوج کے بل بوتے پر جیتا۔ لیکن یہ بل منڈھیر نہ چڑھ سکی ۔ پی ٹی آئی نے اپنے قائد کیطرح ایک لمبا یو ٹرن لیا۔اور فوج کے خلاف مخاذ قائم کر لیا۔ س
جنرل فیض حمید عجیب وغریب کردار کا حامل شخص رہا ۔ایک طرف پی ٹی آئی کو سپورٹ کرتا تھا ۔ دوسری طرف شہباز شریف کو گاڑی کی ڈگی میں بلایا جاتا رھا۔
اتنے بڑے اور حساس عہدوں پر بیٹھنے والے لوگ جھوٹے،مکار اور منافق ھوں تو آپ کسی اور ادارے سے گلہ نہیں کرسکتے۔
اس بات سے انکار نہیں کہ ملٹری اسٹبلشمنٹ نے مظالم کی انتہا کردی۔ راتوں کو دیواریں پھلانگ کر گھروں میں داخل ھوتے رہے۔ بزگوں، عورتوں اور بچوں تک کو نہ چھوڑا۔ ایک اسلامی اور نظریاتی مملکت کی فوج کا اپنی عوام کے ساتھ غیر انسانی رویہ قابل مذمت رہا۔
انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی گئیں۔عوام پر سیدھی گولیاں چلائی گئیں۔
لیکن اسٹبلشمنٹ کے پالتو بچے اپنے مرشد کی اقتدار سے علیحدگی کے بعد فوج سے بھڑ گئے۔
گال گلوچ برگیڈ اور اوریسیز گروپ نے ہر مخاذ پر ملٹری اسٹبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیا۔
پی ٹی آئی کی اسٹبلشمنٹ سے لڑائی میں پیپلز پارٹی اور ن نے خوب آگ بھڑکائی۔ ہر لمحہبھڑکتی آگ پر تیل ڈالا۔اور اسٹبلشمنٹ کا بغل بچہ بن گئے۔ حالانکہ یہی زرداری فوج کی اینٹ سے اینٹ بجانے اور مریم نواز یہ جو دہشت گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے کے نعرے لگواتی رہی ہیں۔ نواز شریف نے فوج کو خلائی مخلوق قرار دیا تھا۔ملٹری اسٹبلشمنٹ کو ایکبار پھر کرائے کا کوئی دوسرا وزیراعظم درکار ہے ۔ جس پر بات نہیں بن رہی ۔ عمران خان کی جیل اور فوجیوں کے ظلم و ستم نے عمران خان کو ہیرو اور جرنیلوں کو زیرو بنا دیا ہے۔
موجودہ سیاست کا نام منافقت،ابن الوقتی، اور دغا بازی ہے۔ یہ تینوں پارٹیاں مٹھا مٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو۔ کی سیاست کرتے ہیں۔ عوام انکی نالائقیوں اور بیہودگیوں کو اگنور کرکے انکے ساتھ کھڑی ھوتی ہے۔میرا یہ ماننا ہے کہ عوام انتہائی سمجھدار جاہل ہیں۔ جو سمجھتے بوجھتے ان لعنتیوں کو ووٹ بھی کرتے ہیں اور تن ،من،اور دھن بھی قربان کرتے ہیں ۔عمران خان کے حمایتی اور بڑے بڑے سیاسی جگادری ۔ٹرمپ کی کال کے منتظر ہیں ۔ کہ صدر ٹرمپ عمران خان کو جیل سے نکلوائیں گے۔ عمران خان کی بہن علیمہ خان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کونسا ھمارا ابا ہے جو خان کو باہر نکلوائے گا۔پی ٹی آئی کے سنجیدہ حلقوں کو اپنے کردار وافکار کا جائزہ لینا چاہئے۔ انکا کردار ماضی کی پیپلز پارٹی، نیگ اور ایم کیو ایم جیسا ہے۔ جہاں فائدہ دیکھا یو ٹرن اور مفادات کو مدنظر رکھا۔
ملٹری اسٹبلشمنٹ ،موجودہ رجیم اور پی ٹی آئی ہر طرف extreme صورتحال اور گھمسان کا رن پڑا ہے۔ جس سے ملک کا نقصان ہو رہا ہے۔
سوشل میڈیا کی ٹرولنگ سے گھبرا کر فائز وال کے نام پر بزنس کمیونٹی کو پریشان کردیا گیا ہے۔ملک میں ہر طرف افراتفری اور پریشانی ہے۔سوشل میڈیا پر حکومت کے خلاف اور عمران کی حمایت میں لکھنے اور بولنے والوں کو گھروں سے اٹھایا جارہا ہے۔چھوٹے بچوں کو عمران خان کی حمایت کی پاداش میں جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ان حکومتی اور اسٹبلشمنٹ کے ہتھکنڈوں نے عمران خان کی محبت میں اضافہ کیا ہے۔
ملٹری اسٹبلشمنٹ کو بھی سیاسی معاملات سے دور رہنا چاہے۔ اپنی وردی کو مزید داغدار نہیں کرنا چاہئے ۔ متنازعہ اور مشکوک کردار نے انکی عزت خاک آلود کر دی ہے۔
انہیں اپنی حرکات سے باز آنا چاہئے ۔ ستر سال میں کوئی ایک غیرت مند جنرل اور جج نہیں آیا جو سولہ دسمبر کے کربناک واقعات سے سبق سیکھ سکے۔ خدارا ملک کو چلنے دیجئے ۔ یہ قائم ہے تو آپکی وردیوں اور عہدوں کی عزت سلامت ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here