صحافیوں کی گرفتاریاں!!!

0
64
شمیم سیّد
شمیم سیّد

گزشتہ 75سالوں سے پاکستانی صحافت نے اپنے بے باکانہ کردار سے جنرل ایوب، جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے سخت اور پر آشوب ترین دور کا جوانمردی سے مقابلہ کیا۔بہت سے صحافیوں نے اس حوالے سے جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا، ماریں بھی کھائیں اور جیلیں بھی کاٹیں۔مجھے یاد ہے کہ پرویز مشرف کے 1999 کے مارشل لا اور 3نومبر2007 کی ایمرجنسی کے وقت جب صحافیوں کی پکڑ دھکڑ ہوئی تو بہت سے رپورٹرز مذکورہ بالا دونوں واقعات کے دوران روپوش ہونا شروع ہوگئے، کچھ صحافی پکڑے گئے، اخبارات کے آفسز میں بھی مخصوص بیٹ پر کام کرنے والے صحافیوں کو اٹھایا گیا۔ صحافیوں کو انتباہ کیا گیا کہ کسی قسم کے نیگٹیو رپورٹنگ کی اجازت نہیں ہے۔ حکم کیسے نہ مانتے بھلا ، سخت مارشل لا کے دور میں صحافیوں کو غائب کیے جانے کا اور اغوا و تشدد کیے جانے کا اندیشہ رہتا۔لیکن پھر بھی نڈر صحافی کسی نہ کسی طرح لفظوں کو گھما پھرا کر اصل بات کہہ دیتے ۔ اسے ہم اکثر ہومیو پیتھک صحافت بھی کہہ دیتے۔ لیکن پھر بھی بہت سے صحافیوں کو پکڑ کر بھرپور تشدد کے بعد چھوڑ دیا جاتا، سراور بھنویں مونڈ دی جاتیں، یا مار دیا جاتا۔ اس سے پہلے کے ضیا مارشل لا میں چلے جائیں، ہمارے اساتذہ پر تشدد کیا جاتا اور انہیں تلقین کی جاتی کہ جو ہم دکھانا چاہتے ہیںصرف وہ دکھائو! باقی سب غائب کر دو۔ صحافت کے لیے اس تمہید باندھنے کا مقصد ایک تو گزشتہ ہفتے صحافت کے عالمی دن پر حاضری لگوانا اور دوسرا موجودہ حکومت کا ایک بار پھر مارشل لا کی یاد تازہ کرتے ہوئے دوست صحافیوں کی گرفتاری عمل میں لانا ہے۔ ان صحافیوں میں مزاح سے بھرپور صحافتی کیرئیر رکھنے والے آفتاب اقبال اور تنقیدی صحافت کرنے والے عمران ریاض بھی شامل ہیں۔ جنہیں عمران خان کی گرفتاری کے بعد عوام کی آواز بننے اور سرکار پر تنقید کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ ان صحافیوں کے ساتھ ساتھ بے شمار وی لاگرز، یوٹیوبر اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کو بھی گرفتار کیا جا رہا ہے۔ انہیں پبلک آرڈر1960کی سیکشن 3کے تحت گرفتار کیا جا رہا ہے۔ اب یہاں سادہ سا سوال یہ ہے کہ ایک صحافی کا کام صبح سویرے ناشتہ لگانے کا نہیں بلکہ خبریں بریک کرنا ہوتا ہے۔ جب صحافی خبر بریک نہیں کرے گا تو اور کیا کرے گا؟ صحافی کا کام عوام کو خبر دینا اور حالات حاضرہ سے آگاہ رکھنا ہوتا ہے۔ اگر ایک صحافی یہ خبر بریک کرتا ہے کہ مظاہرین کینٹ میں داخل ہو چکے ہیں اور وہ حکومتی اقدامات سے سخت نالاں ہیں تو اس میں برائی کیا ہے؟ آفتاب اقبال کا بھی یہی قصور ہے کہ انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسا تو مارشل لا میں بھی نہیں ہوتا جیسا ظلم وہ اس وقت تحریک انصاف کے کارکنا ن پر کر رہی ہے۔ ہاں! ان صحافیوں کا قصور کیا ہے۔ اگر وہ عمران خان کے اقدامات تعریف کرتے ہیں تو ان پر پر تنقید بھی کرتے ہیں؟ اور پھر بتایا جائے کہ کیا نوازلیگ یا زرداری سے جڑے صحافی اپنی لیڈر شپ کے لیے ایسا نہیں کرتے؟ اگر کرتے ہیں تو پھر ان صحافیوں پر اعتراض کیوں؟ بلکہ ان مذکورہ بالا شخصیات کے بارے میں تو مشہور ہے کہ یہ کروڑوں روپے کے تحائف کے ساتھ ساتھ اپنے من پسند صحافیوں کو بڑے بڑے عہدوں سے بھی نوازتے ہیں۔ انہیں بیرون ملک دورے کرواتے ہیں جہاں لاکھوں کی شاپنگ سمیت تمام اخراجات یہ خود اٹھاتے ہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ حکومت کیوں اپنے لیے مسائل پیدا کر رہی ہے، ملک کو کیوں مزید تباہی کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔؟ دنیا ہمارا مذاق بنا رہی ہے ، بھارت ہمیں ملک کے خراب حالات کو بھرپور نیگٹو کوریج دے رہا ہے۔ لیکن ہم ہیں کہ ضدی بنے ہوئے ہیں۔ حالانکہ وسری جنگ عظیم عروج پر تھی، جرمنی کی طرف سے برپا جنگ پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی۔ ان میں فرانس بھی شامل تھا جس کے بہت سے علاقے پر جرمن فوج قابض ہو چکی تھی۔ مقبوضہ علاقوں سے لاکھوں فرانسیسی اپنے ہی ملک میں بے گھر ہو کر وسطی فرانس میں بطور مہاجر کیمپوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے۔ فرانسیسی فوج کی پے درپے ناکامیوں سے مایوس ہو کر فرانس کے عوام پورے ملک میں احتجاج کررہے تھے اور فوج کو ہٹلر کے ہاتھوں شکست کا ذمہ دار قرار دے رہے تھے۔ اپنے ہی عوام کی طرف سے احتجاج اور مخالفت میں نعروں کی وجہ سے فرانس کی فوج شدید دبائو کا شکار تھی۔ جرمن فوج کی پیشی قدمی جاری تھی۔ اس کے باوجود فرانسیسی فوج مزاحمت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب عوام کے اندر سے کم ہوتی حمایت کی بدولت فرانسیسی فوج کے کمانڈر جرمن فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا سوچنے لگے۔ یہ اطلاعات فرانس کی برطانیہ میں قائم جلا وطن حکومت کے سربراہ چارلس ڈیگال تک پہنچی تو اس نے فرانس عوام اور وہاں جرمن فوج سے برسرپیکار فرانسیسی فوج کا حوصلہ بڑھانے کے لیے خطاب کیا۔یہ خطاب فرانس کے لیے انتہائی موثر ثابت ہوا۔ فرانس کے عوام اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہوگئی اور پھر 25 اگست 1944 کو جب فرانسیسی فوج فاتح کے طور پر پیرس میں داخل ہوئی تو ڈیگال اپنی عوام کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا۔ لہٰذا اس وقت ہمیں متحد ہونے کی سخت ضرورت ہے۔ اور اس بات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے کہ آزاد صحافت، خصوصا مزاحمتی صحافت کے تصور کا خاتمہ ہر حکومت کی بنیادی خواہشات میں شامل ہوتا ہے۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ آزادی اظہار رائے کے خلاف peca کا کالا قانون ن لیگ کی گزشتہ دور حکمرانی میں ہی بنایا گیا۔جسے آج بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here