ایم کیو ایم نہ تین میں ہے نہ تیرہ میں

0
36
حیدر علی
حیدر علی

دھواں دھواں اپنے وطن پاکستان کے چپے چپے سے اُٹھ رہا ہے، جمہوریت کی دھجیاں اُڑادی گئیں ہیں، ایسا معلوم ہورہا ہے جیسے پاکستان پر کوئی غیر ملکی دشمن قابض ہوگیا ہو،ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں سے زمینیں دھنس گئیں ہیں، عمارتوں کا صرف ملبہ نظر آرہا ہے، جگہ با جگہ قبریں دیکھ کر اعصاب اور دل و دماغ پر ایسا خوف طاری ہورہا ہے جیسے ہم خود سمندر کے ایسے ساحل پر کھڑے ہیں جسے چند لمحہ بعد ہی سونامی کاریلا خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائیگا، خبریں صرف گرفتاریوں کی زینت بن رہی ہیں، کسی کو ہائی کورٹ کے ایوانوں سے دبوچ لیا گیا ہے اور کسی کو اُس کی آہنی دروازے سے گرفت میں لے لیا گیا ہے جہاں وہ اپنی فریاد لے کر یا انصاف کی گھنٹی بجانے گیا تھا۔
آج سے ایک سال قبل جب عمران خان وزیراعظم تھے ، حالات ایسے نہ تھے، اُنہیں علم تھا کہ اُن کی حکومت جانے والی ہے، اُن کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ دینے کیلئے اراکین اسمبلی کو کروڑوں روپے کی عوض خرید ا گیا تھا اگر عمران خان جو اُس وقت وزیراعظم تھے چاہتے تو وہ بھی اُن ضمیر فروش اراکین اسمبلی کے ووٹوں کو خرید سکتے تھے لیکن اُنہوں نے ایسا نہیں کیا، اُنہیں پاکستان میں ایک صاف وستھرا ، کرپشن سے ماؤرا معاشرہ عزیز تھا، اُنہیں اِس حقیقت کا بھی علم تھا کہ اگر شہبازشریف وزیراعظم بن جاتے ہیں تو اِس سے اُن کا بال بھی بیکا نہ ہوگا، وہ پاکستان کے عوام کے دِل کے وزیراعظم ہی رہیں گے،
یہ بھی ایک انقلاب زمانہ ہے کہ کل تک جو اپنے حجروں میں بیٹھے اپنی ناکامی پر رورہے تھے ، اُنہیں اُمید کی کوئی کرن نظر نہ آرہی تھی اُنہیں کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا کہ آخر اُن کے ووٹ بینک کی پھلجھڑی کس نے اُڑادی ، کس نے اُنہیں سیاست سے کنارہ کش کردیا لیکن آج وہ مینڈک کی طرح کیچڑ سے اپنی گردن نکالے پھر ٹر ٹر کی آوازیں نکالنا شروع کر دی ہیں، اُن میں پیش پیش ہیں پاکستان متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ خالد مقبول صدیقی ، ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنوینر مصطفی کمال اور سینئر رہنما ڈاکٹر
فاروق ستار، ڈاکٹر خالد مقبول کے بارے میں تو یہ مشہور ہے کہ جب وہ چند سال قبل امریکا میں مقیم تھے تو جب بھی اُن کی کسی گھر میں دعوت ہوا کرتی تھی اور وہاں اُنہیں کوئی بالغ یا نابالغ لڑکی نظر آجاتی تو وہ دوسرے دِن ہی اُس سے شادی کا پیغام بھیج دیتے تھے، بہت سارے والدین تو اُن سے اتنا زیادہ ناراض تھے کہ اُنہوں نے اُنہیں کال کرکے یہ انتباہ کردیاتھا کہ خبردار اگر اُنہوں نے اُن کے گھر دوبارہ کال کرنے کی ہمت کی۔ بہر کیف لڑکی کی تلاش میں وہ اتنا زیادہ مگن ہیں کہ اُنہیں شہر کراچی کی کوئی خبر ہی نہیں اور موصوف نے عالم بے خودی میں یہ بیان داغ دیا کہ کراچی کے عوام نے عمران خان کی گرفتاری پر کوئی احتجاج نہیں کیا اگر احتجاج نہ کیا تھا تو شارع فیصل کو بند کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اور شہر کے مختلف اضلاع سے دو دو سو افراد آخر کیوں گرفتار کر لئے گئے تھے، کیا حکومت سندھ اُن افراد کو جیل میں دعوت خاص سے نوازنا چاہتی تھی؟سید مصطفی کمال جو الطاف بھائی کے سابق باورچی ہیں اور اُن کی اِسی خدمات کی وجہ کر اُنہیں کراچی کا میئر بنا دیا تھا، اُنہوں نے فرمایا کہ سابق وزیراعظم عمران خان فوج کے کندھے پر چڑھ کر اقتدار میں آئے تھے، مصطفی کمال کو سمجھنا چاہئے تھا کہ اُن کے اِس طرح کے بیان سے اُن کے ووٹ کی تعداد میں 8 ہزار سے زیادہ اضافہ نہ ہوسکے گا، اُن کی یہ کاوش جس کیلئے وہ اپنی پارٹی پاک سر زمین کو چھوڑ کر پھر ایم کیو ایم کی جھوٹی رکابی چاٹنے آئے ہیں کار گر ثابت نہ ہوگی۔یہ لیجئے ڈاکٹر فاروق ستار کے بیان کو ملاحظہ کیجئے، موصوف فرماتے ہیں کہ عمران خان خود کو آئین و قانون سے ماورا سمجھتے ہیں، میرے بھائی! کس نے آپ کو ڈاکٹری کی سرٹیفکٹ دی ہے؟ یہ جعلی ہے یا اصلی ، اِس کی سرٹیفکٹ لینا ابھی باقی ہے، آپ جیسے نااہل لوگ ہی پاکستان میں پریکٹس کرتے ہیں ، کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ امریکا میں کوئی ڈاکٹر سیاست میں ٹانگ اڑا رہا ہو؟ بہر کیف جب ڈاکٹر فاروق ستار کو یکے بعد دیگرے قومی اسمبلی کی رکنیت کے انتخاب میں شکست ہوگئی تو اُن کے محلے والے نے اُنہیں گھر سے نکال دیا تھااور انھوں نے بہادرآباد میں ایم کیو ایم کے دفتر میں جاکر سونا شروع کردیا تھا یہی وجہ ہے کہ وہ دوبارہ ایم کیو ایم میں واپس آگئے ہیں۔
پاکستان اور امریکا کی سیاست میں بہت زیادہ مماثلت ہے، خصوصی طور پر دونوں ملک کا میڈیا جھوٹ بولنے میں کوئی ثانی نہیں رکھتا،اب مثال لیجئے ڈونلڈ ٹرمپ کے مشہور ریپ کیس کاجس میں خاتون جین کیرول نے سابق صدر امریکا ڈونلڈ ٹرمپ پر جنسی زیادتی کا الزام لگایا تھا، جیوری نے ڈونلڈ ٹرمپ پر جنسی بدسلوکی کا مجرم قرار دیا لیکن اِسی کے ساتھ یہ بھی فیصلہ دیا کہ موصوف نے جین کیرول کے ساتھ کوئی جنسی زیادتی نہیں کی تھی،بیشتر امریکی اخبارارت میں اِس خبر کو اِس طرح توڑ مروڑ کر پیش کیا جس سے اندازہ یہی ہوتا ہے کہ جیوری نے اُنہیں جنسی زیادتی میں بھی ملوث پایا تھا۔
پاکستان کا روزنامہ جنگ جو بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کا ایک بہت بڑا حواری ہے ، جب مودی کو بھارت کی ریاست کرناٹک کے ریاستی انتخابات میں عبرتناک شکست ہوئی تو روزنامہ جنگ نے
اِس خبر کو انتہائی مختصر کرکے باریک حروف میں شائع کیا، جیسے مودی روزنامہ جنگ کا باپ ہو،بنگلہ دیش کے اخبارات نے تو مودی کی شکست کی خبر کا مکمل طور پر بائیکاٹ کیا ہے،یہ امر بھی باعث حیرت ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک گیر ہنگاموں کی خبریں پاکستان سے زیادہ بنگلہ دیش اور برطانیہ کے اخبارات میں شائع ہوئی ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here