وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک ماہ میں اسمبلی کی تحلیل کی یقین دہانی کرائی ہے۔خواجہ آصف سیالکوٹ میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ انتخابات کی تیاری کا آغاز ہو چکا ہے انہوں نے امیدواروں میں انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم کا عمل جلد شروع ہونے کا بتایا۔وزیر دفاع سے قبل خود وزیر اعظم شہباز شریف ایک سے زائد بار قومی اسمبلی کی آئینی مدت پوری ہونے پر اقتدار چھوڑ کر گھر جانے کا کہہ چکے ہیں۔ایک ماہ قبل الیکشن کمیشن نے اعلان کیا تھا کہ اس نے انتظامات شروع کر دئیے ہیں۔وزیر اعظم اور وزیر دفاع کے بیانات کے ساتھ پی ڈی ایم کی سب سے بڑی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کے بیانات سامنے آ رہے ہیں جن میں اسمبلی کی آئینی مدت پوری ہونے کے بعد حکومت میں نہ رہنے کی بات کی جا رہی ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ ان بیانات کے باوجود ملک میں آئندہ انتخابات کے بروقت انعقاد کے متعلق غیر یقینی کی کیفیت ہے۔اس غیر یقینی کے پس منظر میں خود حکومت کے بعض اقدامات بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کی ساکھ پنجاب میں آئین کے ضابطے کے تحت اسمبلی تحلیل کے 90روز کے اندر انتخابات نہ کرانے سے اس حد تک مجروح ہوئی ہے کہ عمومی طور پر حکومتی شخصیات کی یقین دہانیوں کو درخور اعتنا نہیں سمجھا جا رہا۔ جمہوریت کا ہر روز سیاسی رہنما ایک نیا مطلب اخذ کر لیتے ہیں۔جب کوئی مقبول ہوتا ہے تو وہ اکثریت کے حق حکمرانی کو جمہوریت کہہ دیتا ہے اپوزیشن میں جگہ ملے تو جمہوریت کا مطلب مطالبہ اور احتجاج کا حق ہوتا ہے۔جب دونوں صفوں میں پائوں دھرنے کو جگہ نہ ملے تو ہر جائز ناجائز طریقے سے فوائد سے چمٹے رہنا جمہوریت کہلاتا ہے۔کوئی بھی گروہ اور جماعت یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ جمہوریت کا مطلب آئین میں دیے گئے حقوق کے مطابق کسی دبائو کے بنا فیصلے کرنے کی آزادی ہوتا ہے۔جمہوریت کا ایک مطلب عوام کے سامنے جوابدہی ہے۔سیاسی جماعتیں جوابدہی کی نفی کر کے جمہوری نظام کے حق میں بات کر رہی ہیں۔ پاکستان کی سیاست غیر یقینی پن ساکھ کے بحران اور ہمیشہ تلاطم خیز لہروں پر ڈگمگاتی رہتی ہے تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سیاست میں قسمت آزمائی کرنے ولے عوام کے ووٹوں کی بجائے اکثر اوقات شارٹ کٹس اور طاقتور حلقوں کی سرپرستی پر تکیہ کرنا اہم سمجھتے ہیں۔ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جب کوئی سیاست دان غیر مقبول ہونے کے باوجود ملک کا سربراہ بن گیا۔1985 کے انتخابات میں یہ تجربہ ہوا اس کے بعد نوے کا عشرہ کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے۔اسی عشرے میں آئی جے آئی بنی ۔دو دو برسوں اور ڈھائی ڈھائی برسوں کے بعد چار حکومتیں برطرف ہوئیں۔ اس سوال کا جواب کسی نے تلاش نہیں کیا کہ کیا یہ سب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی باہمی دشمنی کا نتیجہ تھا جسے 2006 میں میثاق جمہوریت پر دستخط کر کے ختم کیا گیا یا پھر اس سارے معاملے میں عوام کا بھی کوئی حق غصب کیا گیا تھا جسے بازیاب کرنے کے لئے سیاسی جماعتوں کو کام کرنا تھا۔ 2013 میں مسلم لیگ نواز جیتی تو تحریک انصاف پیپلز پارٹی جمعیت علما اسلام و دیگر جماعتوں نے نتائج کو ریٹرننگ افسروں کی مہربانی قرار دے کر دھاندلی کی شکایت کی۔ایک کے سوا بہرحال کوئی سیاسی جماعت دھاندلی کی تحقیقات کے لئے موثر کردار ادا کرنے پر آمادہ نہ ہوئی۔ان کا بظاہر بیانیہ یہ تھا کہ ان کی جانب سے تحقیقات کا مطالبہ جمہوریت کو پٹڑی سے اتار دے گا۔تاثر یہ گیا کہ یہ جماعتیں ایک طے شدہ منصوبے کا حصہ اور فائدہ اٹھانے والی ہیں۔2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کامیاب ہوئی تو پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے قومی اسمبلی میں پہلی تقریر کرتے ہوئے تحریک انصاف کے وزیر اعظم کو الیکٹڈ کی بجائے سلیکٹڈ کہہ کر مخاطب کیا۔یوں پیپلز پارٹی نے عوام میں پائے جانے والے اس تاثر کو ایک بار پھر مضبوط بنایا کہ ان کے ووٹ کو پامال کر کے فیصلہ ساز قوتیں کسی بھی شخص کو ملک کا حکمران بنا سکتی ہیں۔ موجودہ حالات اس لحاظ سے نازک ہیں کہ پاکستان میں طاقت کے ستون تقسیم نظر آ رہے ہیں۔ریاست کے مفادات کی نگران قوتیں ایک طرف ہیں عوامی سطح پر مقبول سیاسی طبقہ دوسری طرف اور پہلے و دوسرے طبقے کے درمیان تصادم کا تاثر ابھار کر فوائد اٹھانے والا تیسرا گروہ الگ مورچے میں بیٹھا ہوا ہے۔کچھ حلقے ملک میں انتشار کا خاتمہ اسی صورت میں چاہتے ہیں جب ان کے مفادات پورے ہونے کی یقین دہانی کہیں سے کرا دی جائے۔اسٹیبلشمنٹ خود کو غیر جانبدار قرار دے رہی ہے لیکن حکومت ہر معاملے میں اپنے غیر مقبول فیصلوں کو اسٹیبلشمنٹ کے کھاتے میں ڈھیر کرتی جا رہی ہے۔جمہوریت یہ ہے کہ ہر جماعت کو آخر عوام سے رجوع کرنا ہے۔پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت پہلے دن سے اپنے لئے اس سازگار وقت کی تلاش میں ہے جہاں ووٹر اس کی طرف کھنچے چلے آئیں۔اس سوچ نے پنجاب میں انتخابات نہیں ہونے دیے۔اچھی بات ہے کہ حکومت آئینی مدت کے اختتام پر اقتدار چھوڑنے کا وعدہ کر رہی ہے لیکن ایسی یقین دہانیوں کا موزوں فورم قومی اسمبلی ہے۔حکومت کو چاہیے کہ ایوان میں اسمبلی کی تحلیل اور نئے انتخابات کی تاریخ پر ہی نہیں انتخابات کی شفافیت پر بھی ووٹروں کو اعتماد میں لے۔
٭٭٭