کراچی:
احاطہ عدالت میں قیدیوں کے موبائل فون استعمال کرنے کی پابندی ہوا میں اڑا دی گئی جب کہ پولیس کی سرپرستی میں قیدی احاطہ عدالت میں آزادانہ موبائل فون کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔
جیل ہو یا احاطہ عدالت زیرحراست ملزمان پر موبائل فون کے استعمال کی سختی سے ممانعت ہے تاہم پابندی کے باوجود جیل سے عدالت لائے گئے قیدیوں کی جانب سے پولیس کی سرپرستی میں موبائل فون کے آزادانہ استعمال سے احاطہ عدالت میں کسی بھی وقت کوئی بڑا سانحہ رونما ہوسکتا ہے اور کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد اپنے زیرحراست ساتھیوں کو پولیس کی تحویل سے چھڑانے کیلیے ماضی کی طرح تخریب کاری کی بڑی کارروائی کرسکتے ہیں۔
پولیس کے بعض ضمیر فروش اور کرپٹ اہلکار صرف اپنی جیبیں گرم کرنے کیلیے سٹی کورٹ میں ججز ، وکلا اور دیگر لوگوں کیلیے ہائی سیکیورٹی رسک بنے ہوئے ہیں، پولیس کی دیدہ دلیری اور ہٹ دھرمی کا یہ عالم ہے کہ جیل کے قیدیوں سے مختلف طریقوں سے رقم بٹورنے کا گھناؤناکھیل چھپ چھپا کے یا خفیہ طریقے سے نہیں بلکہ لوگوں کو انصاف فراہم کرنے والی عدالت کے عین ناک کے نیچے کھیلا جاتاہے۔
عدالت کے سامنے قیدیوں کو غیرقانونی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں، روزانہ سینٹرل جیل،لانڈھی جیل،وومن جیل، جوینائل جیل اور ریمانڈ ہوم سے600سے800 قیدیوں کو ان کے مقدمات کی تاریخوں کے موقع پر سٹی کورٹ لاک اپ لایا جاتا ہے، بعدازاں انھیں زنجیروں میں جکڑ کر کورٹ پولیس کے اہلکاروں کی نگرانی میں ان کی متعلقہ عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے۔
قانون کے تحت قیدیوں کی حفاظتی ڈیوٹی پر مامور کورٹ پولیس کے اہلکار اس قانون کے پابند ہیں کہ وہ عدالت پیشی کے بعد فوری طور پر اپنی کسٹڈ ی لاک اپ پولیس کی تحویل میں دیں تاکہ قیدیوں کی سیکیورٹی کو یقینی بنایا جاسکے تاہم کورٹ پولیس کے اکثر اہلکار قانون کی کھلم کھلا دھجیاں اڑاتے ہوئے قیدیوں کو لاک اپ کرنے کے بجائے ان سے مختلف حیلے بہانوں سے رقم بٹورتے ہیں، مٹھی گرم کرنیوالے قیدیوں کو موبائل فون استعمال کرنے کی کھلم کھلا اجازت دے دی جاتی ہے، اس موقع پر پولیس قیدیوں سے یہ تک دریافت نہیں کرتی کہ آیا وہ دہشت گردی، تخریب کاری، بم دھماکوں ، ڈکیتی یا قتل سمیت کن الزامات کے تحت جیل حکام کی تحویل میں ہیں۔
پولیس کو اس سے بھی کوئی سروکار نہیں کہ قیدی کون سی کالعدم تنظیم کا سرگرم رکن ہے بلکہ انھیں تو بسرشوت کے حصول سے مطلب ہے، سٹی کورٹ میں دہشت گردی تخریب کاری اور بم دھماکوں کے مقدمات کی سماعت کے موقع پر خطرناک ملزمان کو بھی عدالت لایا جاتاہے اور پیشی کے بعد ملزمان پولیس کی سیکیورٹی میں موبائل فون استعمال کرتے ہیں، کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے ان کے ساتھی کسی بھی دہشت گردی و تخریب کاری کی بڑی کارروائی کرکے اپنے ساتھیوں کو پولیس کی تحویل سے چھڑا کر فرار ہو سکتے ہیں۔
یہ کوئی مفروضہ یا قیاس آرائی نہیں بلکہ سٹی کورٹ میں ایسے دل دہلادینے والے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں جب کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے زیرحراست ملزمان نے اپنی سیکیورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں کی مٹھی گرم کرنے کے بعد اپنے ساتھیوں کو موبائل فون پر اپنی پوزیشن اور پولس کی نفری سے متعلق اطلاع دی تھی۔
بعدازاں کالعدم تنظیم کے دہشت گرد سٹی کورٹ میں داخل ہوگئے تھے اور احاطہ سٹی کورٹ فائرنگ اور بم دھماکوں سے گونج اٹھا تھا، دہشت گردی کی کارروائی میں پولیس اہلکاروں سمیت کئی افراد جاں بحق ہوگئے تھے اور کالعدم تنظیم کے دہشت گرد اپنے ساتھیوں کو سٹی کورٹ سے لیکر فرار ہوگئے تھے۔
یہ صرف ایک سانحہ نہیں بلکہ سٹی کورٹ کے در و دیوار ایسے کئی واقعات کے گواہ ہیں لیکن شاید پولیس کے ارباب و اختیار ان واقعات کو فراموش کرچکے ہیں یا وہ ایسے ہی کسی واقعے کے منتظر ہیں تاکہ حسب روایت سٹی کورٹ میں سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات کیلیے احکامات جاری کیے جائیں، کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر نعیم قریشی نے اعتراف کیا ہے کہ سٹی کورٹ میں پولیس کی سرپرستی میں قیدی موبائل فون استعمال کرتے ہیں جوکہ انتہائی خطرناک اور گھناؤنا عمل ہے اور اس کی ذمے داری سندھ پولیس پر عائد ہوتی ہے۔
ڈی آئی جی جیل خانہ جات قاضی نذیراحمد نے رجوع کرنے پر کیمرے کے سامنے اپنے موقف سے معذرت ظاہر کی اور کہا کہ جیل حکام پر قیدیوں سے متعلق تمام تر ذمے داری جیل تک ہی محدود ہے، انھوں نے اپنا دامن صاف بچاتے ہوئے عذر پیش کیا کہ جیل سے عدالت جانے کے بعد قیدیوں کی ذمے داری جیل انتظامیہ پر نہیں بلکہ کورٹ پولیس پر عائد ہوتی ہے۔
سٹی کورٹ لاک اپ انچارج سب انسپکٹر مرزا شہزاد بیگ نے قیدیوں کے موبائل فون کے استعمال سے متعلق یہ موقف اختیار کیا کہ کسی بھی قیدی کو موبائل فون کے استعمال کی اجازت نہیں جو پولیس اہلکار قیدیوں سے سازباز کا مرتکب ہوا اس کے خلاف ایکشن لیا جائے گا، لاک اپ انچارج نے قیدیوں کی جانب سے موبائل فون کے استعمال سے متعلق الزام کو یکسر مسترد کردیا۔