سی پی این ای نے میڈیا کورٹس کی تجویز مسترد کر دی

0
111

کراچی:

کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) نے وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹرفردوس عاشق اعوان کی جانب سے میڈیا کورٹس متعارف کرانے کی تجویز پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے یکسر مسترد کرنے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ سی پی این ای میڈیا سے متعلق امتیازی قوانین سازی کی سخت مخالف ہے اور اسی بنا پر سابق وفاقی وزیراطلاعات کی جانب سے پیش کردہ ’’پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی‘‘ (PMRA) کے مسودے کو بھی مسترد کیا تھا۔

سی پی این ای کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق سی پی این ای کے صدر عارف نظامی اور سیکریٹری جنرل ڈاکٹر جبار خٹک نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ میڈیا سے متعلق شکایات اور تنازعات کو نمٹانے کے لیے پریس کونسل آف پاکستان (PCP)، پیمرامیں ’’کمیشن آف کمپلینٹ‘‘، ویج بورڈ عملدرآمد ٹریبونل سمیت متعدد ادارے، قوانین اور قواعد موجود ہیں لہٰذا میڈیا کورٹس کا قیام قطعاً غیرضروری ہے۔

انھوں نے کہا کہ میڈیا کورٹس کے قیام جیسے کسی بھی اقدام سے میڈیا کی آزادی، میڈیا اداروں اور صحافیوں پر دباؤ ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ انھوں نے حکومت پر زور دیا کہ ملک میں جمہوری کلچر کے استحکام، تحریر و تقریر اور اظہار کی آزادی جیسے بنیادی حقوق کے فروغ کے لیے میڈیا پر ہر قسم کے دباؤ کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے۔

 

سی پی این ای کے رہنماؤں نے مزید کہا کہ پاکستان میں اس وقت بھی میڈیا اور صحافی انتہائی سخت قسم کے براہ راست اور بالواسطہ دباؤ کا شکار ہیں جبکہ جمہوری حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ میڈیا کو درپیش دباؤ سے نجات دلانے کے لیے مناسب اقدام کرے، میڈیا کے معاملات کو ملک کے عام قوانین کے تحت ہی چلایا جائے اور میڈیا کورٹس جیسے امتیازی اقدامات جیسی تجاویز کو فوری واپس لیا جائے۔

دریں اثنا آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس ) نے بھی میڈیا کورٹس کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ وفاقی حکومت اس تجویز کو فوری واپس لے۔

اپنے بیان میں اے پی این ایس کے صدر حمید ہارون اور سیکریٹری جنرل سرمد علی نے کہا کہ مجوزہ میڈیا کورٹس میڈیا کا بازو مروڑنے کیلیے ادارہ جاتی اضافہ ہونگی۔ میڈیا پہلے ہی پریس ایڈوائس اور حکمراں حلقوں کے مختلف دباؤ کا سامنا کررہا ہے لہٰذا وفاقی حکومت فوری طور پر اس تجویز کو واپس لے۔ اے پی این ایس کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ وہ عوام کے حقوق کیلیے واچ ڈاگ کا کردار ادا کرتے رہیں گے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here