دوست ، رشتہ دار، پرست تار ، وفا دار ، تابعدار، مرید, مربی،مرشد اور اِس قسم کے کئی الفاظ روز مرہ کی گفتگو میں استعمال ہوتے ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ زندگی کی تگ و دو میں اِن میں سے کون قابلِ اعتماد ہے۔ دوستی کا لفظ بڑا مقدس و معتبر ہوتا ہے۔ پرانے زمانے میں اکثر و بیشتر دوستی کی بنیاد اخلاص پر ہوتی تھی۔ سادہ غذا اور تازہ ہوا کا زمانہ تھا۔ لوگ بھی سادہ اور مخلص ہوتے تھے۔ اب نہ غذا سادہ رہی اور نہ ہوا تازہ رہی تو انسان سادہ دل کہاں سے ملیں؟ گو سچی دوستی کی بنیاد اخلاص پر ہے مگر صاحبانِ اخلاص اب خال خال ہیں اور یہ دوستی کا نہیں مفاد پرستی، خود غرضی اور نفسانفسی کا دور ہے۔ سید عارف نے بجا کہا تھا!
اتنے مخلص بھی نہ بن جا کہ پچھتانا پڑے
لوگ اخلاص کو ٹھکرا بھی دیا کرتے ہیں
پہلے دوست گلے ملتے تھے اب دوست گلے لگتے ہیں۔ دوست اور منافق میں فرق مشکل ہو گیا ہے۔ بامروت لوگ تو منافقوں سے بھی نبھاہ کر لیتے ہیں اور اِن کم ظرف لوگوں کو یہ احساس بھی نہیں ہونے دیتے کہ وہ ان کی کارستانیوں، فریب کاریوں اور مکاریوں کو سمجھتے ہیں۔ یہ بے ضمیر سمجھتے ہیں کہ وہ بہت ہوشیار ہیں اور بہ آسانی جسے چاہیں دغا دے سکتے ہیں۔ حالانکہ بقولِ جگر مراد آبادی !
گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز
کانٹوں سے بھی نباہ کیے جا رہا ہوں میں
قرآنِ مجید کی آیتِ مبارکہ ہے ھل جزا الا حسانِ اللاحسان ( احسان کا بدلہ سوائے احسان کے اور کیا ہے) لیکن حضرت علی کا قولِ زریں بھی یاد آتا ہے۔ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بھی ڈرو۔ ان دوستوں سے جو آستین کے سانپ اور خنجر در آستین ہیں گریز بہتر ہے۔ احمد فراز کا شعر ہے!
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
بوقتِ مصیبت آنکھیں چرانے، چہرہ چھپانے اور دامن بچانے والے دوست نہیں بلکہ منافق اور دغا باز ہوتے ہیں۔ دلیر اور بزدل میں یہ فرق ہے کہ دلیر انسان دوست کے لیے آتشِ نمرود میں بھی کود جاتا ہے اور بزدل انسان دوست کو ایسے چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے جیسے شیر کی چنگھاڑ پر لومڑی دم دبا کر جھاڑیوں میں چھپ جاتی ہے۔ سچا دوست دست گیر ہوتا ہے نہ کہ دست کش ۔شیخ سعدی کا مشہور شعر ہے!
دوست آن باشدکہ گیرد دستِ دوست
در پریشاں حالی و درماندگی
انگریزی زبان میں اِن دوستی کے رشتوں کے لیے چار بنیادی الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ رشتہ دار( relative),دوست( friend), پرستار( fan) اور مرید( disciple)۔ اسی طرح دنیاوی، دینی اور روحانی رشتوں کے لیے اصلاحات اور الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ جہاں تک فی زمانہ دوستی کا تعلق ہے وہ ناپید و نایاب یا کم از کم کمیاب ہے۔ آج کل کی دوستی کمیاب ہے کامیاب نہیں ۔ میرا ایک شعر ہے!
ہم کو تو ہر اک دوست دغا دے کے گیا ہے
تم دوست اگر ہو تو دغا کیوں نہیں دیتے
میرے احباب اور عقیدت مندوں میں ہر قسم کے لوگ ہیں۔ فقیر بھی اور وزیر بھی۔ نادار بھی اور سرمایہ دار بھی۔ کرنیل بھی اور جرنیل بھی۔ لوگ اکثر مجھ سے سفارش کے خواستگار ہوتے ہیں۔ میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ مظلوم اور حقدار کی سفارش نے مجھے ثواب کے ساتھ ساتھ سکونِ دل بھی دیا اور اِس کے علاوہ جس جس کی بھی سفارش کی وہ اِن احسان فراموشوں پر ناحق احسان کیا۔
سیاست دانوں کی اکثریت کو دغا باز، فریب کار، بے وفا، جاہ پرست اور مطلب پرست پایا۔ حکومتی افسران کو ملازم نہیں بلکہ غلام پایا۔ یہ لوگ چڑھتے سورج کے پجاری اور حکومتی کھیل کے مداری ہیں ۔زور آور کے آگے یہ زیر اور زیر آور کے آگے زبر ہیں۔ یہ ذہنی غلام خود ساختہ حاکم بنے پھرتے ہیں۔ ہر بدلتی حکومت کے ساتھ ان کی وفا داریاں بدل جاتی ہیں۔ اگر یہ لوگ خود دار ہوتے تو قانون اور آئین سے ہٹ کر نہ کوئی کام کرتے اور نہ کسی آمر و جابر سے ڈرتے۔
مرید اور مرشد کا معاملہ بھی کسی معمہ سے کم نہیں۔ جس کو شعورِ خودی ہے وہ مرشد اور جو ناوقفِ اسرارِ خودی ہے وہ مرید۔ مرید جنت کا طلبگار اور مرشد خود گنہگار۔ بریں عقل و دانش بباید گریست ۔ بقولِ علامہ اقبال
مریدِ سادہ تو رو رو کے ہو گیا تائب
خدا کرے کہ ملے شیخ کو بھی یہ توفیق۔ میری فارسی و اردو شاعری کی کتاب میخانہ کی ایک فارسی نظم سازِ فکر کا شعر ہے
شیخ و ملا بے خبر از روحِ دیں
سینہ ھایند خالی از سوزِ یقیں
رہا رشتہ داروں کا معاملہ تو خدا اِن کے شر سے دشمن کو بھی محفوظ رکھے۔ سازشیں ،بدگمانیاں،ریشہ دوانیاں اور آتشِ حسد اِن کا وطیرہ ہے۔ اگر کسی کو ایک بھی مخلص دوست یا وفادار رشتہ دار مل جائے تو وہ اسے معجزہ سمجھے اور سجد شکر ادا کرے۔ مرزا غالب کے اِس شعر کو حرزِ جاں اور اصلِ ایماں سمجھے
وفا داری بشرطِ استواری اصلِ ایماں ہے
مرے بتخانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
حاصلِ تحریر حافظ شیرازی کا یہ شعر ہے
آسائشِ دو گیتی تفسیرِ این دو حرف است
با دوستان مروت با دشمنان مدارا
عملی زندگی کی مجبوری ہے کہ دوستوں، رشتہ داروں ، پیروں ، مریدوں ، پرستاروں اور ملازموں سے مدارات کو قائم رکھا جائے۔ ارسطو نے کہا تھا انسان سماجی جانور ( social animal) ہے ۔ اگر انسان سماجی جانور ہے تو پھر جانورں میں رہنا اِس کی سماجی مجبوری ہے۔ افسوس صد افسوس انسانی شکل میں اِن سیاہ کاروں، غداروں ، بے وفاں اور بے ضمیروں کے لیے قرآنِ مجید نے اِنہیں جانوروں سے بد تر قرار دیا ہے۔ مولانا رومی تو یہاں تک فرما گیے کز دام و دد ملولم انسانم آرزوست ۔ جس انسان کی آرزو رومی کو تھی وہ صرف اور صرف انسانِ وفادار ہے۔ میری نظر میں جو آپ کا وفا دار ہے وہی آپ کا رشتہ دار اور مونس و غم خوار ہے ۔
٭٭٭