گزشتہ سے پیوستہ!!!
وہ لوگ قہری طور سے اس کی طرف توجہ بھی نہیں کرتے اور وہ اپنے ماحول سے متاثر ہو کر جو بھی صورت زندگی میں در پیش ہو اسی پر راضی بر رضا رہتے ہیں ۔ ان کو اس کی کبھی فکر نہیں ہوتی کہ اس کا انجام کتنا وحشتناک ہے ؟ یہیں سے یہ بات طے ہوجاتی ہے کہ تمدن نہ کبھی اچھے اخلاق کا موجد ہوا ہے اور نہ ہی کبھی معاشرے کی سعادت و اصلاح کی ضمانت دے سکتا ہے ۔ آج کی زندگی اس بڑی نہر کی طرح ہو گئی ہے جس کا پانی زمین کے نشیبی علاقہ کی طرف رواں دواں ہو ۔ اسی طرح ہماری زندگی بھی تمنائوں کے دل فریب نشیب کی طرف تیزی سے بھاگ رہی ہے اور ہر قسم کی پستی و فساد میں الجھتی جا رہی ہے ۔ یہ صرف اس لئے کہ تمنائوں کو حاصل کر سکے اور اپنی شخصی نفع اندوزی کر سکے ، لوگوں نے اپنے نفوس کے لئے نئی ضرورتوں کا میدان تلاش کر لیا ہے اور بڑی شدت کے ساتھ اس میدان میں اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے دوڑ لگا رہے ہیں ۔ لیکن اسی کے ساتھ کچھ ایسی بھی خواہشات ہیں جن کی تکمیل بہت آسان ہے ، جیسے غیبت تہمت،فریب چاپلوسی،تضحیک و غیرہ حالانکہ یہ چیزیں شراب سے زیادہ نقصان دہ ہیں ۔مجھے میرے ایک استاد اخلاق نے بتایا تھا کہ اگر دودھ کے ڈرم میں ایک قطرہ شراب کا ڈال دیا جائے تو سارا دودھ نجس ہو جائے گا۔ اسی طرح اگر نیک اعمال میں ایک غیبت کی آمیزش کر دی جائے تو سارے اعمال آلودہ ہو جاتے ہیں۔ معاشرہ کی سب سے بڑی برائی جو آج ہمیں کھائی جا رہی ہے وہ عیب جوئی و غیبت ہے جس کے معنی کی وضاحت کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہر عام و خاص اس کے مفہوم کو سمجھتا بھی اور سوئے استفادہ بھی کر رہا ہے۔ غیبت کاسب بڑا مقصان تو یہی ہے کہ غیبت کرنے والے کی معنوی وجودی شخصیت ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے ۔ جو لوگ غیبت کے عادی ہو گئے ہیں انھوں نے اپنی فکری موزونیت و نظم اخلاقی کو کھو دیا ہے ۔ یہ لوگ عیوب اور رازوں کو ظاہر کر کے لوگوں کے دلوں کو زخمی کرتے ہیں ۔غیبت کو قرآن نے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف کہا ہے۔غیبت اور عیب جوئی کی بدترین مثالیں شوشل میڈیا پر اور واٹس ایپ گروپ پر مل جائیں گی۔ غیبت بزرگ ترین محل فضیلت کو ویران کر دیتی ہے۔ مختصر یہ کہ یہ بری عادت روشن افکار کو بدل کر اس کے ذہن کے سامنے فہم و تعقل کے دریچوں کو بند کر دیتی ہے ۔اگر آپ معاشرہ کو گری نظر سے دیکھیں تو اس غیبت نے پیکر اجتماع پر کاری ضرب لگا کر اس کو مجروح کر دیا ہے اور معاشرے کے اندر کینہ و دشمنی اضافہ کر دیا ہے۔ جس قوم کے اندر یہ صفت راسخ ہو گئی ہے اس نے قوم کی عظمت کو خاک میں ملا دیا ہے ۔ اس کی شہرت کو داغدار بنا دیا ہے ۔ اور اس ملت کے اندر ایسا شگاف ڈال دیا ہے جو بھرنے والا نہیں ہے ۔یہی بڑا گناہ جو اکثر لوگوں کو چھوٹا نظر آتا ہے کبھی طلاق کا پیش خیمہ بن جاتا ہے اور کبھی قتل و غارت ذریعہ بن جاتا ہے کبھی گھر برباد ہوتے ہیں اور کبھی قوم اور قبیلے برباد ہوتے ہیں
بڑے افسوس کے ساتھ ہم کو اس تلخ حقیقت کا اعتراف کر لینا چاہئے کہ آج غیبت کا بازار ہر جگہ گرم ہے ۔ اور اس نے ہر طبقہ کے اندر رخنہ پیدا کر دیا ہے جس طرح گیتی کے حادثات باہم مرتبط ہوتے ہیں اسی طرح اگر لوگوں میں روحانی انحراف پیدا ہو جائے تو وہ ہر طبقہ میں سرایت کر جاتا ہے۔ غیبت کی وسعت دامانی کی وجہ سے لوگوں کے افق افکار پرمایوسی و بد بینی کی روح سایہ فگن ہو چکی ہے ۔ آپس کا اعتماد ختم ہو گیا ہے۔ اس لئے جب تک اچھی صفات و روح یگا نگت کا سایہ معاشرے پر نہ پڑے خلوص کا تحقق نا ممکن ہے ۔ جس معاشرے میں اخلاق پسندیدہ کا وجود نہ ہو وہ با برکت حیات کی نعمتوں سے محروم رہتا ہے ۔
ان چیزوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خود ہمارا فریضہ ہے کہ ایک روحانی جہاد کر کے خلوص نیت کے ساتھ اپنے بلند جذبات کو تقویت پہنچائیں اور سب سے پہلے اپنے نفس کی اصلاح و تہذیب کی کوشش کریں تاکہ سر زمین نیک بختی پر قدم جما سکیں اور اپنے معاشرے کی ہر پہلو سے اصلاح کر سکیں۔آئیے آ ج مل کر عہد کریں کہ اپنے معاشرے کو پاکیزہ بنانے کے لئے غیبت اور عیب جوئی کے خلاف علم جہاد بلند کریں گے،اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
٭٭٭ا