گزشتہ چالیس برسوں میں پاکستان میں دہشت گردی اغواءکاری لاپتگی قتل وغارت گری میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا آرہا ہے جس میں سرکاری اور غیر سرکاری لوگ شامل ہیںجس کی وجہ سے پاکستان گرے لسٹ سے بلیک لسٹ کی طرف رواں دواں ہے جس کا آج کے دور میں دالخلافہ اسلام آباد اغواکنندگان کی آماجگاہ بن چکا ہے۔یہاں مصر دوسرے دن کسی نہ کسی صحافی کو اغواءکرکے تشدد کا نشانہ بن جایا جاتا ہے جس سے پاکستان پوری دنیا میں ایک دہشت گردوں کا ملک بن کر سامنے آیا ہے۔جس سے باہر نکلنا مشکل ہوچکا ہے۔تاہم گزشتہ چند مہینوں اور سالوں میں پاکستان کے چند صحافی حضرات حامد میر،احمد نورانی، ابصار عالم، اسد نور، عمر چیمہ، سلیم شہزاد، مطیع اللہ جان، رضوان رضی یا پھر انسانی حقوق اور لاپتہ افراد کے وکیل کرنل انعام الحق الرحمان کو اغواءاور تشدد کیا گیا جس کا پوری دنیا میں واویلا مچا ہوا ہے کہ پاکستان خاص طور اسلام آباد اغوا کرنے والوں گھڑ بن چکا ہے۔یہاں کوئی نہ کوئی اغواءہوتا نظر آرہا ہے چونکہ میڈیا پر پابندیاں عائد ہیں۔جس میں عام لوگوں میں کارکنوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل رہا ہے کہ جن کو اغواءقتل اور لاپتہ کیا جاتا ہے جن کے وارثین دربدر رونے پیٹنے نظر آتے ہیں۔پاکستان میں پکڑم دھکڑم قتل وغارت گری اور اغواءکاریوں کی وجہ سے ملکی سرمایہ کاری بیرون منتقل ہوچکی ہے۔جس کی وجہ سے ملک بھر میں مہنگائی، بے روزگاری کا طوفان آچکا ہے۔جس کو مصنوعی طریقوں اور بیانوں اور جوانوں سے بیان کیا جارہا ہے۔جس کا حقائق سے دور دور کا واسطہ نہیں ملے اگر ملکی معیشت ٹھیک ہوچکی ہے۔تو پھر پاکستان میں مہنگائی اور بے روزگاری کیوں ہے جس کا جو اب نداءبہرکیف پاکستان وہ ملک تھا یہاں دنیا بھر کے سیاح آیا کرتے تھے۔جو تاریخی اور دلچسپی مقامات دیکھ کر خوش ہوا کرتے تھے حکمرانوں کا پاکستان کے دورے ہوا کرتے تھے۔بھٹو جیسے لیڈر نے پوری دنیا کے مسلم حکمرانوں کو پاکستان مدعو کیا تھا۔امریکی، برطانوی اور بھارتی حکمران پاکستان کے سرکاری ادارے کرکے اپنی پالیسیوں کو اعلان کیا کرتے تھے۔جو اب خواب بن کر رہ گیا ہے کہ جب سے جہاد یا فساد اور دہشت گردی کی جنگوں کا آغاز کیا گیا پاکستان قاتلوں، مافیاﺅں پردہ فرشوں، ڈاکوﺅں، اغواءکاروں کی ریاست بن کر رہ گیا ہے۔یہاں سرکاری اور غیر سرکاری دہشت گردی برپا ہوتی ہے۔سرکاری اداروں کے اہلکار وہ اغواءکرنا لاپتہ کرنا،ڈاکہ زنی کرنا روزمرہ کا شیوا بن چکا ہے ۔جس کا پوری دنیا میں چرچا رہتا ہے جس کی وجہ سے دنیا بھر کے ملکوں نے اپنے اپنے باشندوں کو پاکستان کا سفر کرنا منع کردیا ہے چونکہ پاکستان پر جنرلوں کی حکومت کا دور دورہ رہا ہے۔جنہوں نے دہشت گردی مقصد پیدا کی ہے۔جو اب پھل پھول گر گینگسٹروں میں تبدیل ہوچکی ہے جو آئے دن کرایہ کے قاتل اغواءکار، لاپتہ کرنے نظر آتے ہیں۔ظاہر ہے جب پاکستان کے جبری حکمران اور فوج کا سپہ سالار جنرل مشرف اپنی کتاب میں ذکر کرتا ہے۔کے میں نے بطور صدر پاکستان اور آرمی چیف پاکستانیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح پکڑ پکڑ کر غیر ملکی طاقتوں کو بیچا ہے۔یا حوالے کرتے ہوئے معاوضہ وصول کیا ہے تو اس کے بعد کس کس پر الزام لگائیں کہ ملک میں کیا کچھ نہیں ہوا ہے یا ہورہا ہے جس پر تنقید کرنے والوں کو اغواءکرکے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس کی تازہ مثال مشہور نوجوان صحافی اسد طور کی ہے کہ جن کو دو مرتبہ اغواءکرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا حد تو یہ ہوچکی ہے تاکہ نقادوں کے گھروں میں داخل ہوکر بیوی بچوں کے سامنے مارا پیٹا جاتا ہے۔جس کے مستقبل میں بڑے خطرناک نتائج برآمد ہونگے کہ جب یہی بچے جو اپنے ماں باپ پر تشدد دار زیادتیوں کا نشانہ بننے دیکھ سکیں۔وہ کل یہی ہتھیار اپنے ہاتھوں میں تھام لیں گے جس کے بعد ملک میں ایک وسیع پیمانے پر انتشار اور خلفشار پھیلا ہوا نظر آئے گا۔جس کا موجودہ ممبر منتخب مسلط حکمرانوں کو علم نہیں ملے۔سابقہ بنگال میں یہی ہوا تھا کہ آخر میں عام بنگالی عوام نے چھرے چاقوﺅں سے ظلم وتشدد کرنے والوں کو شکست فاش سے دوچار کردیا تھاجس کی مثال دنیا میں بہت کم ملتی ہے لہٰذا ایسے تمام اعمال اور اقدام سے اجتناب کیا جائے۔جو کل کلاں بنگالی قوم کی طرح انتقام میں نہ جھلس جائے جو دنیا کی خانہ جنگی بہتر بڑی جنگ ہوگی جس کے اثرات پاکستان میں پیدا ہوچکے ہیں۔بہرحال اداروں پر تنقید کرنا ہر شہری کا قانونی اور آئینی حق نہیں بلکہ فرض ہے جس سے معاشرہ صحیح سمت کی طرف جاتا ہے جوایک مضبوط ریاست کا جز ہے یہی وجوہات میں کہ جمہوری ملکوں میں ہر ادارے پر تنقید ہوتی ہے۔قومی عسکریت اور لشکریت کے خلاف لاکھوں کی تعداد میں جلسے جلوس نکلتے ہیں۔جس کی مثال برطانیہ پندرہ لاکھ امریکہ میں پانچ لاکھ، اٹلی میں تیس لاکھ اور دوسرے ملکوں میں لاکھوں کی تعداد میں مشرف وسطہ کی جنگوں کے خلاف احتجاج ہوئے مگر کسی احتجاجی کے خلاف مقدمہ نہ بنا تاہم کوئی تنقید کرنے والے صحافی اغوا ہو نااہل کسی تنقید کرنے والے سیاستدان کو جیل بھیجا گیا۔خاص طور پر امریکہ پہلی ترجیح ہمیشہ تنقید کرنے والوں کی حمایت میں آجاتا ہے۔جو اسکے تحت بڑے بڑےطرح فان جارج بش اور ٹرمپ کی پگڑیاں اچھال دیتے ہیں لیکن وہ گرفتار نااہل اغواءاور قتل ہوتے ہیں۔جس کی بدولت امریکہ دنیا کی جمہوری اور عالمی طاقت کہلاتا ہے۔حالانکہ امریکہ میں آبادکاروں کا تعلق دنیا بھر کی قوموں سے ہے۔جو قوموں کی ایک قوم کہلاتا ہے جس کو امریکی آئین اور قانون نے ایک قدم بنا دیا ہے۔جو ملک میں قانون کی حکمرانی کی بدولت زندگی گزار رہے ہیںیہاں قانون اور انصاف تمام اشخاص اور اہلکاروں، وزیروں اور مشیروں کے لیے یکساں ہے۔قبضہ مختصر پاکستان جو آزادی کے نام پر بنا تھا جس کے بانی پاکستان نے فرمایا تھا کہ پاکستان ایک مثالی ریاست ہوگی۔یہاں عوام کی یکساں جمہوری حقوق دستیاب ہونگے۔ہر شخص آزاد اور خودمختار ہوگا۔تمام شہریوں کو برابر کے حقوق میسر ہونگے۔شہریوں کی بلاامتیاز اور بلاتفریق خدمت ہوگی۔ہر شخص قانون کا طابع ہوگا۔
وہ ملک آج لاقانونیت کا شکار ہے جس کے باشندے ملک چھوڑ چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ملک میں قانون اور آئین سے بالاتر ادارے بن چکے ہیں۔دن پر پاکستان قانون اور آئین لاگو ہوتا ہے۔جو اکثر وپیشتر قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو مارتے پیش نظر آتے ہیں۔جنہوں کے ریاست کے اندر ریاست کے بعد ریاست کے اوپر ریاست کا وجود قائم کر رکھا ہے۔جس کے سامنے ریاست پاکستان بے بس اور بے اختیار ہوچکی ہے۔جو ریاست پاکستان کو جوابدہ نہیں ہیں۔ایسے میں پاکستان کا قائم رہنا کوئی معجزہ ثابت ہوگا ورنہ ایسے میں ریاستوں کا وجود بکھر جاتا ہے۔جس کی مثال سابقہ سوویت یونین موجود ہے کہ جب اداروں نے ظلم وستم اختیار کیا تو سوویت یونین سے گیارہ ملکوں نے جنم لیا لہٰذا فیڈریشن یا یونین کو قائم رکھنے کے لیے اغواءلاپتہ، قتل وغارت گری کا بازار بند کرنا ہوگاورنہ افراتفری کا دور چل نکلے گا۔
٭٭٭٭