غزہ میں خوراک کا بحران!!!

0
27

سلامتی کونسل نے غزہ میں بڑے پیمانے پر انسانی امداد فراہمی کی قرارداد منظور کی ہے۔یہ قرار داد مظلوم فلسطینیوں کے لئے اس لحاظ سے اہم ہے کہ اسرائیل کی مسلسل بمباری کی وجہ سے خوراک ، ادویا اور دیگر ضروری اشیا کی غزہ میں ترسیل ناممکن ہو چکی ہے۔اسرائیل مصر سے ملحق سرحد کو کھولنے کی اجازت نہیں دے رہا ۔اقوام متحدہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ غزہ میں خوراک کا بحران سنگین ہونے پر پوری آبادی قحط کا شکار ہو سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کو بھوک کے ایک ایسے تباہ کن بحران کا سامنا ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ آنے والے ہفتوں میں محصور ساحلی پٹی کے ہر فرد کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔اسی دوران نئے قیدیوں کے تبادلے کے لیے لڑائی میں عارضی توقف کی اُمیدیں ختم ہو رہی ہیں۔اسرائیلی ہٹ دھرمی کے باعث حماس نے اس وقت تک مذاکرات کو مسترد کر دیا ہے جب تک کہ اسرائیل غزہ پر اپنے حملے نہیں روکتا۔غزہ میں امداد سے متعلق امریکہ نے کہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے ترمیم شدہ متن کی حمایت کر سکتا ہے جس کا مقصد غزہ میں امداد کے فراہمی کو بڑھانا ہے، لیکن مخالفت کے باعث اس متن کو ہٹا دیا گیا۔ ترمیم شدہ قرارداد پر ووٹنگ جمعہ تک ملتوی کر دی گئی تھی اگلے دن روس و امریکہ نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔غزہ میں انسانی بحران کے بارے میں مسلسل خطرے کے انتباہ کے دوران اقوام متحدہ نے بھوک کی سطح کو تشویش ناک قرار دیا۔ ہزاروں افراد قحط کے خطرے سے دوچار ہیں۔اقوام متحدہ اور فوڈ سکیورٹی ایجنسیوں کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کے شمال میں پانچ میں سے چار گھرانوں اور جنوب میں بے گھر ہونے والوں میں سے نصف تعدادبغیر خوراک کے دن گزار رہی ہے۔ غزہ میں ہر چار میں سے ایک گھرانے کو اس وقت شدید بھوک کا سامنا ہے۔ فلسطینی عوام مناسب خوراک، صاف پانی، صحت اور صفائی کی خدمات تک رسائی بحال ہونے کے منتظر ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق IPC جوایک ملٹی اسٹیک ہولڈر پلیٹ فارم ہے یہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ سائنسی معیارات کے مطابق بھوک کے بحران کی شدت کا تعین کرنے کے لیے ڈیٹا کا تجزیہ کرتا ہے۔اقوام متحدہ کے بھوک کی نگرانی کے نظام، انٹیگریٹڈ فوڈ سیکیورٹی نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں “سب سے زیادہ امکانی منظرنامہ” یہ ہے کہ 7 فروری تک “غزہ کی پٹی کی پوری آبادی ،تقریبا 2.2 ملین افراد، ہو جائے گی۔یہاں “بحران یا بدتر” بھوک کی سطح بڑھ سکتی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ “وہ لوگ سب سے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں جو شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کر رہے ہیں ۔آئی پی سی نے خبردار کیا ہے کہ 7 فروری تک تقریبا 50% آبادی کے “ہنگامی” مرحلے میں ہونے کا خدشہ ہے ۔آئی پی سی کے پاس خوراک کے بحران کا اندازہ لگانے کے لیے پانچ مراحل کا نظام ہے اور اس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں “چار گھرانوں میں سے کم از کم ایک” یا نصف مپانچ لاکھ سے زیادہ افراد کو پانچویں مرحلے میں تباہ کن حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔اگرچہ شدید غذائی قلت اور صدمے سے متعلق اموات کی سطح ابھی تک قحط کی حدوں کو عبور نہیں کر سکی لیکن یہفاقہ کشی اور بیماری کے خطرات کو بڑھا رہی ہے ۔ موسم سرما شروع ہو رہا ہے جبکہ غزہ کی تقریبا 90 فیصد آبادی اسرائیلی فوجی کارروائی سے بے گھر ہو چکی ہے۔ غزہ کی پٹی میں غذائی عدم تحفظ کی صورت حال دن بدن سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ صرف 10 دن پہلے کے ایک حالیہ بلاگ اور ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایک جائزے کی بنیاد پر اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ اکتوبر اور نومبر کے دوران غزہ کی 80 فیصد آبادی بے گھر ہوئی اور 80 فیصد سے زیادہ افرادخوراک کی کمی کا شکار ہوئے۔ انٹیگریٹڈ فیز کلاسیفیکیشن (آئی پی سی) کی جانب سے دسمبر کے اوائل میں کیے گئے ایکیوٹ فوڈ انسکیورٹی کے لیے ایک نئی تشخیص اس سے بھی زیادہ المناک تصویر پیش کرتی ہے جس میں اندازے کے مطابق 85 فیصد آبادی بے گھر ہو چکی ہے اور غزہ کی 2.2 ملین آبادی میں سے 93 فیصد کو بحران کی سطح یا بدتر شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے۔ جب سے آئی پی سی نے بیس سال قبل غذائی قلت کا تخمینہ لگانا شروع کیا ہے تب سے فلسطینی کسی بھی تناظر میں شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنے والی آبادی کا سب سے زیادہ حصہ ہیں۔ آئی پی سی کی تشخیص کے مطابق، 15% سے زیادہ آبادی (378,000 افراد) آئی پی سی فیز 5 میں تھی، جس کی تعریف “تباہ کن” کن کے طور پر کی گئی ہے، یعنی ایک ایسی حالت جہاں “کسی بھی انسانی امداد کے باوجود کسی علاقے میں پانچ میں سے کم از کم ایک گھر میں خوراک اور دیگر بنیادی ضروریات کی شدید کمی فاقہ کشی، موت اور بدحالی کی واضح تصویر ہے۔فلسطینی علاج، پناہ گاہوں، عالمی ہمدردی اور خوراک سے محروم ہیں ، مہذب دنیا ان کی مدد کرنے کے ساتھ سفاک اسرائیل کو مجبور کرے کہ ناحق لہو دنیا میں بد امنی پھیلانے کا باعث ہو گا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here