پاکستان میں آجکل آئندہ انتخابات میں نشان پر مہنگا مدبر پاس کہ بلا نشان دیا جائے۔ یہ جانتے ہوئے کہ اگر عوام کسی پارٹی کے پیروکار ہیں تو وہ کسی بھی نشان کو ووٹ دے سکتے ہیں جس طرح ماضی میں دنیا بھر کے سرمایہ داری اور جاگیرداری بادشاہتوں، آمروں اور جابروں کے دور حکومتوں میں کمیونسٹ اور سوشلسٹ پارٹیوں پر پابندیاں عائد رہی ہیں۔ پاکستان میں ماضی میں نیشنل عوامی پارٹی اور عوامی لیگ پر پابندی عائد کی گئی جس میں انتخابی نشانات تو کچا امیدواروں کو انتخابات سے دور رکھا گیا ہے۔ پی پی پی کو نشان تلوار سے محروم رکھا گیا جو1970ء اور1976کے انتخابات میں تلوار نشان تھا جس کی جگہ بعدازاں پی پی پی نے تیر کا نشان اپنایا تھا۔ اسی طرح ایم کیو ایم کو نشان مخصوص سے محروم کیا گیا جس نے پتنگ کا نشان اختیار کیا ہے یا پھر آزاد امیدوار اور نومولود پارٹیاں نت نئے انتخابی نشانات حاصل کرتے ہیں جو نئے انتخابی نشانات پر انتخاب جیت جاتے ہیں جس میں ان کی اپنے علاقوں میں کارکردگی ،رسہ گیری،دب دبائو کا ہتھیار استعمال ہوتا ہے مسلم لیگ نے نہ جانے اب تک کتنے نشانات حاصل کئے ہیں چونکہ عمران خان کے پاس1992کا فرنگی لارڈوں کا کرکٹ کھیل کا چند ملکوں پر مشتمل ورلڈکپ جیتا ہوا ہے جس کی جیت میں تمام کے تمام کھلاڑیوں کی ہمت اور طاقت شامل تھی مگر سارے کے سارا کریڈٹ عمران خان نے لیا جس کے نام پر شوکت خانم جیسی دودھ کی گائے باندھی جس کے دودھ سے ان کے خاندان کی خواتین نے سو ارب سے زیادہ مال کمایا ہے۔ چنانچہ جب فوجی جنرلوں نے عمران خان کی ورلڈکپ کی مشہوری پر سیاست کے کھیل کے میدان میں اتارا گیا تو ان کے بلے کے نشان کو پیش کیا گیا جبکہ نوے کی دہائی میں پورے پاکستان میں صرف دس فیصد عوام کرکٹ کے کھیل کے بارے میں واقف تھے جن کا تعلق شہری آبادیوں سے تھا جس کے مقابلے میں ہاکی کھیل کے شائقین کئی گنا زیادہ تھے یا پھر علاقائی کھیلوں کے عوام زیادہ شوقین تھے مگر بعض طاقتوں نے سابقہ آقائوں کے عیش و عشرت کے لیے کھیلا جانے والے کرکٹ کھیل کو اتنا پرموٹ کیا کہ جس کی گرد میں پانچ مرتبہ ورلڈکپ جیتنے والی ٹیم کے اور علاقائی کھیلوں کے مشہور کھلاڑی دب کر ختم ہوچکے ہیں تاہم بَلا نشان سابقہ مقبوضہ ملکوں اور ریاستوں پر مسلط ہے جس کی وجہ سے پی ٹی آئی جو بَلے کی پیدا وار ہے جو بَلے کے نشان کو پر مر رہی ہے تاکہ وہ کل بَلے کے علاوہ کیا ایجنڈا پیش کریں گے کہ عمران خان نے اپنے دس سالہ دور حکومت میں پختونخواہ، پانچ سالہ پنجاب حکومت اور ساڑھے تین سالہ مرکز حکومتوں میں کیا کیا ہے۔ جو وہ عوام کو بتایا جائے کہ ان کے دور میں کیا کیا اصلاحات اور ترقی ہوئی ہے۔ اسی لئے پی ٹی آئی بَلے کے نشان پر بضد ہے جو ان سے شاید اس لئے چھن چکا ہے کے انہوں نے وقت پر حسب معمول انٹرا پارٹی انتخابات منعقد نہیں کئے تھے چونکہ پی ٹی آئی جنرلوں کی پیدا کردہ ہجوم ہے جو کوئی منظم پارٹی نہیں ہے جس کا مشاہدہ حال میں ہوا کہ عمران خان بیت المال کی گھڑی چوری میں سزا یافتہ ہوئے تو پورے ملک میں کوئی درخت کی ٹہنی تک نہیں ٹوٹی ہے یا پھر لاکھوں یا کروڑوں سوشل میڈیا کی پیروکار ہیں۔ جو جیل توڑ کر عمران خان کو چھڑوا سکے میں جس طرح ماضی میں الطاف حسین کو ان کے پیروکاروں نے کراچی قبل سے رہا کرایا تھا۔ چونکہ موصوف آج بھی سابقہ اور حاضر ڈیوٹی جنرلوں کے اشارے پر چل رہا ہے جو فوج میں بغاوت کا عنصر بنا ہوا ہے۔ جن کی وجہ سے 9مئی کا واقعہ پیش آیا کہ جس میں فوجی خاندانوں کی بیگمات، بچوں اور سابقہ افسران نے مل کر فوجی چھائونیوں ، ہیڈکوارٹوں، ایربیسوں کورکمانڈروں اور دوسرے تنصیباتوں پر حملہ کیا تھا۔ جس میں زیادہ تر فوجی خاندان شریک تھے بہرکیف آج پاکستان کے ادارے تقسیم ہوچکے ہیں جو ملک کے لئے کسی بھی وقت الفریقہ جیسے واقعات رونما برپا کرسکتے ہیں کہ جب ٹنگ سے ٹنگ سے ٹکرا جائے گا جس کے بعد پاکستان بھی مزید کئی حصوں میں ٹوٹ جائے گا جو دراصل غیر ملکی طاقتور کا ایجنڈا ہے جس پر سابقہ فوجی افسران اور حاضر ڈیوٹی جنرل عمل کر رہے ہیں ورنہ نشان بلا ہو یا بلاِ ہو کیا فرق پڑتا ہے اگر آپ عوام میں ہر دلعزیہ ہیں تو لوگ بھٹو کی طرح قبر کو بھی ووٹ دیتے ہیں جو شاید عمران خان کے پاس طاقت نہیں ہے جس کا صحیح پتہ آئینہ فروری میں چلے گا کہ وہ بھی بھٹو اور نوازشریف کی طرح قید خانے میں جیت پائے گا جس طرح بھٹو1979میں انتخابات جیت رہا تو جنرل ضیاء الحق نے انتخابات ملتوی کردیئے تھے یا پھر نوازشریف کو2018میں جیل میں بند رکھا ہوا تو بھی وہ85قومی نشستوں اور پنجاب میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والی پارٹی مسلم لیگ نون تھی جبکہ انتخابات میں دھاندلی کے لئے انہیں جیل میں اپنی بیٹی سمیت جیل میں قید کیا گیا تھا۔ بحرحال نشان بلاَ ہو یا بلا کوئی فرق نہیں پڑے گا بشرطیکہ عوام میں جعلی کی بجائے حقیقی ہر دلعزیزی ہو تو عوام بلےَ کی بجائے دودھ پی جانے والے کو بلے کو بھی ووٹ دے دیں گے۔
٭٭٭٭