اندازِ بیاں اور بھارت کی نامور ادبی، ثقافتی اور سماجی شخصیت محترمہ ڈاکٹر ممتاز منور صاحبہ صدر انجمنِ ترقیء اردو پونہ ہند کا شعری مجموعہ ہے۔ مرزا غالب نے کہا تھا!
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
آپ کا تعلق ایک روحانی اور ادبی گھرانے سے ہے، خاندانی شجر نسب حضرت امام حسین علیہ السلام سے جا ملتا ہے۔ بنیادی طور پر اِس خاندان کا تعلق بیجاپور دکن بھارت سے ہے۔ آپ کی تعلیم و تربیت شہر پونہ میں ہوئی۔ آپ نے میری شعری تصنیف ”روزنِ دیوارِ زنداں” پر عمدہ تبصرہ کیا تھا جو میری کتاب میں شامل ہے تبصرے کا عنوان مقصود جعفری: ہمہ جہت شخصیت ہے۔ آپ نے کتاب کی پی ڈی ایف ارسال کی ہے اور رائے چاہی ہے۔ میں نے اس دلچسپ، دلپذیر اور فکر انگیز شاعری کا بغور مطالعہ کیا اور اِسے اردو ادب میں قابلِ قدر اضافہ پایا۔ حمد، نعت، مرثیہ کے علاوہ اس میں غزلیات، رباعیات، قطعات اور نظمیں شامل ہیں۔ گویا یہ شعری مجموعہ ایک گلدست صد رنگ ہے اور ہر پھول کی اپنی خوشبو ہے۔ ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است- آپ کی شاعری تو بلاشبہ خوبصورت ہے مگر آپ بھی ایک خوبصورت شکل و شخصیت کی آئینہ دار ہیں ۔ آپ کی رومانوی شاعری پڑھ کر زخمِ جاں کے مصنف استاد فوق لدھیانوی مرحوم کا شعر یاد آ گیا!
یہ حسنِ مجسم بھی اگر محوِ دعا ہے
اے میرے خدا اور یہ کیا مانگ رہا ہے
گویا کرشمہ دامنِ دل میکشد کہ جااینجاست۔ آپ نے غالب، میر، اقبال، مجاز لکھنوی اور ساحر لدھیانوی کے کلام کی تعریف کی ہے اور آپ کی رومانوی، سماجی اور انقلابی شاعری پر ان شاعر وں کی شاعری کے اثرات نمایاں ہیں۔ آپ کی شاعری کی زبان سادہ و سلیس ہے۔ آپ کی شاعری دلِ درد مند کی غماز ، انسانیت کی آواز، اور محبت کا سازہے۔ آپ مشرقی تہذیبی روایات کی حامل اور شریفانہ اقدار میں کامل ہیں۔ جذبات و احساسات کا اظہار نسائی لہجے اور مشرقی آداب کو ملحوظِ خاطر رکھ کر کرتی ہیں۔ آپ کی نظر میں انسان دوستی شاعری کی معراج ہے۔ بقولِ علامہ اقبال!
شعر را مقصود اگر آدم گریست
شاعری ہم وارثِ پیغمبریست
انسان عصرِحاضر کی چکاچوند میں کہیں کھو گیا ہے، مذہبی انتہا پسندی، نسلی امتیازات، فرقہ واریت، جاگیر داری، تنگ نظری، تعصبات، توہمات، ملائیت ، خانقاہیت، سرمایہ داری، ملوکیت، آمریت اور کساد بازاری میں انسان نہیں مل رہا، مولانا رومی نے بجا فرمایا تھا کز دام و دد ملولم و انسانم آرزوست، آپ کہتی ہیں!
کھو گیا وجود انساں کا
ڈھونڈھنے اب کدھر جائیں
آپ کی شاعری میں رومانوی رنگ غالب ہے لیکن پھر بھی جابجا روحانی اور صوفیانہ رنگ اپنا رنگ دکھاتا ہے۔ نظم منزل روحانی کیف و کیفیت کی نمایندہ نظم ہے۔ آپ کی اکثر نظموں میں آتشِ ادراک اور شعورِ ذات کی تابشِ و بینش ہویدا ہے۔ آپ کی شاعری کا رنگ و آہنگ کلاسیکل ہے مگر افکار میں جدت اور اشعار میں حدت نمایاں ہے۔ کتاب ہمہ خانہ آفتاب است کے مصداق زندگی کے تیرہ و تار راستوں میں مہرِ فروزاں کی طرح روشن ہے اور ہر شعر اپنی جگہ قابلِ ستائش ہے لیکن یہ چند اشعار شاعرہ کے احساسِ دروں کے غماز ہیں
وہ زمانے موت سے کچھ کم نہ تھے
زندگی میں جب تمہارے غم نہ تھے
کِھلتا نہیں اِس شاخ پہ کوئی بھی گلِ تر
اے بادِ صبا ڈھونڈ نئی راہ گذر اور
ظلم نے لب سیئے ہیں لوگوں کے
کیا بتائیں کہ مدعا کیا ہے
منزل کی طلب میں ہوں جو ہو نہ سکی پوری
گھر لوٹتے ہی پھر سے درپیش سفر آیا
خوار ہو کے جو ہم کو جینا ہو
اِس سے بہتر یہ ہے کہ مر جائیں
زندگی خواری، بیماری، نابکاری، بے اختیاری ، بے اعتباری اور شرمساری ہو تو ایسے جینے سے موت بہتر۔ڈاکٹر ممتاز منور شاعری میں اِسی لیے ممتاز ہیں کہ وہ انسانی زندگی کو ممتاز اور منور دیکھنا چاہتی ہیں۔ اللہ پاک اِن کے آدرش پورے کرے اور اِن کی تمنائیں بر آیئں ، این دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد
٭٭٭