جرائم،مظاہرین کےخلاف صدر ٹرمپ کی جانب سے نیشنل گارڈز کی تعیناتی پر سیاسی کشمکش ،ری پبلی کنز کی حمایت ڈیمو کریٹس کی مخالفت

0
126

نیویارک (پاکستان نیوز) ملک کے مختلف شہروں میں بڑھتے احتجاج ، ریلیوں اور کشیدگی کو روکنے کے لیے نیشنل گارڈ ز تعینات کر دیئے گئے ہیں ،حکومتی عہدیداران کی جانب سے ٹرمپ کے فیصلے کی بھرپور تائید کی جا رہی ہے کہ نیشنل گارڈز مظاہرین اور جرائم کی روک تھام میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ، کالے افراد نے نسلی تعصب کے واقعات سے تنگ آکر کالی وردی اور جدید ہتھیاروں سے آراستہ اپنی فوج تیار کر لی ہے جس نے پورٹ لینڈ کے شہر میں سڑکوں پر مسلح گشت بھی کیا جس سے صورتحال کی سنگینی کا باخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ، کالے افراد نے 2016میں گوروں کی جانب سے تیار کی گئی مسلح فوج کے جواب میں یہ اقدام کیا گیا ہے ، 2016میں گورے افراد نے ٹرمپ کے ہارنے کی صورت میں بھرپور خانہ جنگی کی تیاری کر رکھی تھی اور اس سلسلے میں باقاعدہ ایک فور س بنا لی گئی تھی ، دوسری طرف ڈیموکریٹس کے گورنر اور میئرز نے ٹرمپ کی جانب سے نیشنل گارڈز کی تعیناتی کے عمل کو کسی صورت بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے ، ان کے مطابق جرائم کی شرح میں روک تھام کے لیے مقامی سیکیورٹی فورسز بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں ، ایسی صورت حال میں نیشنل گارڈ ز کی تعیناتی کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، پورٹ لینڈ کے گورنر کو مظاہرے کا حصہ بننے پر نیشنل گارڈز کی جانب سے آنسو گیس شیلنگ کا نشانہ بنایا گیا ہے اور انھوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس معاملے کو عدالت میں لے کر جائیں گے ، دریں اثنا ماہرین نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ ایسی ریاستیں جہاں ڈیموکریٹس کی اکثریت ہے وہاں ٹرمپ نے جان بوجھ کر نیشنل گارڈز کو تعینات کیا ہے تاکہ کشیدگی بڑھنے پر آئندہ انتخابات کو ملتوی کیا جا سکے ۔لوئس ویلی کی میئر کریگ فشر نے بھی نسلی تعصب کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے کہا کہ شہری انتظامیہ کو اس سلسلے میں ایک قرارداد پاس کرنی چاہئے جس میں نسل پرستی کو پبلک ہیلتھ کرائسز کے طور پر پیش کیا جائے ، انھوں نے بتایا کہ نسل پرستی کے خلاف اقدامات ہماری پہلے دن سے ہی ترجیح رہے ہیں لیکن ہم چھوٹی سطح پر یہ سب کچھ کر سکتے ہیں ، جارج فلوئیڈ اور دیگر ہلاکتوں کے بعد اب لوگ خود سڑکوں پر نکلنا شروع ہو گئے ، اب حکومتی سطح پر اس بات کی ضرورت ہے کہ نسل پرستی کے خلاف قومی سطح پر بڑی قانونی سازی کی جائے جس میں اس کو باقائدہ ایک جرم قرار دے کر سزائیں تجویز کی جائیں تاکہ ملک کو مستقبل کی خانہ جنگی سے محفوظ رکھا جا سکے ۔اکثر شہروں میں نسلی فسادات بھی ہوئے، لوٹ مار میں اربوں ڈالر کا نقصان ہوا، بڑے بڑے سٹوروں اور بینکوں کی کھڑکیوں پرمضبوط تختے اور لوہے کے جنگلے لگا دئے گئے ہیں۔ اس تحریک کو بلیک لائیوزمیٹر کا نام دیا گیا۔خانہ جنگی اور تحریک آزادی کے کئی نامور جرنیلوں اور رہنماﺅں کے نصب مجسمے اکھاڑ دیئے گئے بعدازاں ریاستی اور شہری حکومتوں نے خود ہی جن میں کرسٹو کولمبس کے مجسمے بھی شامل ہیں ہٹا دیئے گئے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے مخصوص مزاج کے مطابق تحریک کی مخالفت میں بیانات دیئے جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔واشنگٹن ا سٹیٹ کے شہر سیاٹل پورٹ لینڈ جو اوریگن سٹیٹ کا دوسرا بڑا شہر ہے دونوں ویسٹ کوسٹ پر واقع ہیں جن میں وفاقی بلڈنگوں کا محاصرہ کر لیا گیا جواب بھی جاری ہے۔ پولیس نے لوئی ویل پورٹ لینڈ سیاٹل اور دیگر کئی شہروں میں مظاہرین سے قبضے چھڑانے کی کوشش کی مگر دو ماہ گزرنے کے باوجود کامیابی نہ ہوسکی۔گزشتہ دنوں دبی دبی خبریں آنا شروع ہوئیں کہ42لاکھ آبادی والی ریاست اوریگن کے بڑے شہر پورٹ لینڈ جسکی مجموعی آبادی سات لاکھ کے قریب ہے امریکن انڈین کبھی اس سٹیٹ سے آبائی باشندے تھے مگر اب وہ نسل ناپید ہے البتہ سفید فام اکثریت میں ہیں جنہوں نے وفاقی جوڈیشل بلڈنگز پر قبضہ کر رکھا ہے صدر ٹرمپ کے حکم پر ہوم لینڈ سکیورٹی جسے سابق صدر بش نے نائن الیون کے بعد مسلمانوں کی سرکوبی کے لئے تشکیل دیا تھا پہلی بار احتجاجی مظاہرین کو منتشر کرنے کےلئے استعمال کیا اور بغیر لائسنس پلیٹ کی گاڑیوں میں نیم فوجی دستوں نے پرامن اور یونین جگہ مشتعل مظاہرین کو اٹھا کر گاڑیوں میں نامعلوم مقام پر منتقل کرنا شروع کردیا۔ بارڈر پٹرول سکیورٹی، ایف بی آئی اور کسٹم امیگریشن کے حکام بھی بھاری اسلحے کے ساتھ بغیر نام کی وردیوں میں مظاہرین اٹھانے لگے۔ مین سٹریم میڈیا نے ان خبروں کو زیادہ اہمیت نہیں دی البتہ سی این این نے خبروں میں بتانا شروع کیا۔ اس ہفتے جب فیڈرل فورسز نے طاقت کا استعمال شروع کیا تو اسکی زد میں پورٹ لینڈ کے ڈیموکریٹ میئر ٹیڈوہیلر اور پولیس کمشنر بھی آئے اور آنسو گیس انکو لگے جب وہ مظاہرین سے گفتگو کر رہے تھے۔صدر ٹرمپ نے یہ دھمکی بھی دی تھی کہ جن ڈیموکریٹ یعنی انکی مخالف سیاسی جماعت کے شہر میں مظاہرہ ہونگے وہاں وہ وفاقی نیم فوجی دستے جنکی تعداد75000تک ہوگی استعمال کئے جائینگے۔ انہوں نے اس پر عمل درآمد شروع کردیا ہے بعض اراکین کانگریس اور میئرز نے عدالتوں سے رجوع کیا لیکن عدالتوں نے صدر ٹرمپ کے اقدامات کو درست قرار دیا تاہم میڈیا کو رپورٹنگ کی مشروط اجازت دے دی۔سول لبرٹیز اور دیگر تنظیموں نے کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کےخلاف ایکٹ اور کسٹم بارڈر پیٹرول سرحدوں کی حفاظت کےلئے بنائی گئی تھی جسے امریکی عوام پر طاقت کے استعمال کےلئے لایا گیا ہے کئی اسلامی رہنماﺅں نے خبردار کیا ہے کہ نائن الیون کے بعد ان ایجنسیوں کے ہاتھوں جن نام نہاد مسلمانوں نے اپنے لوگوں پر مظالم ڈھائے انہیں بے نقاب کیا جائے گا۔تاریخ کے ایک پروفیسر شرلی جیکسن نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے الزام لگایا کہ افریقن امریکنز کی سماجی انصاف کےلئے شروع کی گئی تحریک کونسل پرستوں نے ہائی جیک کرلیا ہے اور تمام تر توجہ ان قابض مظاہرین کی طرف ہوگئی ہے بلیک لائیوزمیٹر کو بری طرح سبوتاژ کر دیا گیا ہے۔کئی حلقے یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ مصر، ہانگ کانگ، فلپائن، ترکی اور بعض دیگر عرب ممالک کی طرح اب امریکہ میں بھی لوگوں کو اپنا حق مانگنے پر غائب کیاجانے لگا ہے ۔ان پر دہشت گردی کے قوانین کا نفاذ کیا جارہا ہے۔خاص طور پر مسلمانوں کو پروفائل کرکے انہیں نشانہ بنایا گیا ۔ لوگوں کے ساتھ ناروا سلوک پر احتجاج کو کسی طور پر دہشت گردی قرار نہیں دیا جاسکتا۔پیر کے روز ہوم لینڈ سکیورٹی کے ڈپٹی قائم مقام سیکرٹری گوچی نیلی کین نے ایک ٹویٹ کے ذریعے پورٹ لینڈ کی تحریک دہشت گردی سے تعبیر کیا ہے سی این این نے ایک نہتی لڑکی پر تین فوجیوں کو تشدد سے زیر کرکے اس لڑکی پر سوار دکھایا گیا ہے۔نومبر کے الیکشن قریب آتے ہی صدر ٹرمپ نے75ہزار فوجی دستے ان مظاہرین کو منتشر کرنے کےلئے جو دھمکی دی تھی اس پر عملدرآمد شروع کر دیاگیا ہے۔ سابق صدر بش نے اپنے ری الیکشن کےلئے اسامہ اور مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیکر امریکی عوام کے جذبات مشتعل کرکے ووٹ حاصل کئے اب ٹرمپ پرامن حق مانگنے والوں کو کچل کر انتہا پسندی کے حامیوں کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دونوں پالیسیاں غلط تھیں اور امریکی باشعور ووٹرز ہمیشہ سے اپنی ویلیوز کا تحفظ کرتے آئے ہیں البتہ یہ کڑا امتحان انکے سروں پر آن پہنچا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here