بدلتا ہے آسمان کا رنگ کیسے کیسے !!!

0
134
حیدر علی
حیدر علی

حیدر علی

بلاشبہ امریکی حکومت کا تمام نظام درہم برہم ہوچکا ہے پولیس جو قانون کی نگہبانی کیلئے تعینات رہتی تھی کتیا کی طرح دُم ہلا کر بھاگ گئی ہے، نائن ون ون پر اگر کال کریں تو سوال در سوال یہی ہوتا ہے کہ شکایت کسی سیاہ فام یا ہسپانوی کے خلاف تو نہیں میرے ایک دوست نے اِن سوالوں کا جواب دینے میں کچھ پس و پیش کا مظاہرہ کیا تو کال ٹیکر نے پوچھا کہ اچھا یہ بتا¶ کہ مذکورہ شخص کا رنگ گورا تھا یا کالا؟ میرے دوست نے اِس سوال کے جواب کو بھی گول کرنا چاہا تو پھر کال ٹیکر نے پوچھا کہ اُس شخص کے سر کے بال گھونگرے تھے یا سپاٹ؟ میرے دوست نے غصے میں جواب دیا کہ وہ آدمی تھا آدمی اُسکا رنگ رات کی سیاہی میں کالا اور دِن کے اُجالے میں گورا ہو جاتا تھا اُس کے سر پہ کوئی بال تھے ہی نہیں اُسکا لہجہ ایسا تھا جیسے گدھا ڈھینچوں کر رہا ہواِسلئے اُس نے جب مجھ سے کہا کہ میں اپنا والٹ اور سیل فون اُس کے حوالے کردوں تو میں نے یہ سمجھا کہ شاید وہ مجھے سیاہ فام کے علاقے میں آنے پر خوش آمدید کہہ رہا ہے بہر کیف کال ٹیکر نے انتہائی سرد مہری کے ساتھ یہ کہا کہ ٹھیک ہے پولیس پہنچ جائیگی۔ پولیس ٹھیک ایک گھنٹے بعد پہنچی ، اور شکایت دہندہ کو یہ اطلاع دی کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جرم کسی خلائی مخلوق نے کیا ہے ، اِسلئے وہ کوئی کاروائی تودور کی بات رپورٹ بھی نہیں لکھ سکتی ہے پولیس کیلئے کیس سنگین اُسی وقت ہوسکتا ہے، جب کوئی کسی کا قتل کردے یا گورنر یا میئر کو گالی بکے لیکن اِسے کہتے ہیں کہ بدلتا ہے آسمان کا رنگ کیسے کیسے کل تک سڑک پر سویا ہوا ہوم لیس مین آج اُسے انتہائی گرمجوشی کے ساتھ اسکول کی بنیاد ڈالنے کی تقریب میں بحیثیت مہمان خصوصی لایا جارہا ہے، تقریب کے شرکا اُس کی شان میں قصیدہ خوانی کر رہے ہیں، ایک مقرر یہ کہہ رہا ہے کہ ہم نادم ہیں کہ ہم نے آپ کو اب تک نظر انداز کیا، آپ کے دادا کی سِول رائٹ کی تحریک میں قربانیاں کبھی بھی فراموش نہیں کی جاسکتیں ہیں، یہ اور بات ہے کہ آپ کے والد محترم ڈبل ہومیسائڈ کے جرم میں تا حیات پابند سلا سل رہیں۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج صرف آپ ہی دستیاب ہیں، ورنہ آپکے رفقا کار، دوست احباب یا رشتہ دار سب کے سب اندر ہیں، ہوم لیس مین نے جب یہ دیکھا کہ تعریف کے پُل اُس کی شان میں باندھے جارہے ہیں تو اُس نے اسکول کے ایک منتظم سے پوچھا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ اُسے اسکول کی عمارت میں ایک چھوٹا سا کمرہ بھی دے دیا جائے تاکہ وہ وہاں بود و باش اختیار کر سکے۔ منتظم نے جواب دیا کہ فی الحال یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ اسکول فیڈرل گورنمنٹ کے خیراتی فنڈ سے تعمیر کیا جارہا ہے اور فیڈرل گورنمنٹ کے گورے بیوروکریٹس اِس طرح کی حرکت پسند نہیں کرتے ہیں البتہ میں آپ کو ایک کمرے کا اپارٹمنٹ دلوادونگا جہاں آپ صرف ایک ماہ کا کرایہ دے کر قبضہ حاصل کر سکتے ہیں، اُس کے بعد آپ کو کسی چیز کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں، آپ تاحیات وہاں مفت رہ سکتے ہیں، حکومت کورونا وائرس گذشتہ سال ، کورونا وائرس موجودہ سال، کورونا وائرس آئندہ سال ، کورونا وائرس 2030 ءکی وجہ سے کسی کو بے دخل کرنے کی مجاز نہیں ہے ۔ہوم لیس مین نے جواب دیا کہ تب تو سب کے سب اٹھائے گیرے، مفلوک الحال، خانہ بدوش اور راندہ درگاہ مویشیوں کو مین ہٹن کی فلک بوس عمارت میں ایک ایک کمرے کا اپارٹمنٹ لے لینا چاہئے تاکہ اُن کے رہائش کا مسئلہ قیامت تک کےلئے حل ہو جائے۔” رہائش کا مسئلہ حل اور تین وقت کا ناشتہ کھانا بھی مفت“اسکول کے منتظم نے کہا ”کھانا بہت ہے، ہر دوسرا آدمی کھانا تقسیم کر رہا ہے بلکہ یہ اعلان بھی کر رہا ہے کہ کھانا لینے آ¶گے تو دس ڈالر بھی ملے گا کیونکہ اُنہیں ٹی وی کے خبروں میں فلم بھی دکھانی ہوتی ہے کہ فلاں تنظیم جو دو دِن قبل قائم ہوئی تھی برونکس کے بھوکے لوگوں میں کھانا تقسیم کر رہی ہے لیکن وہ تنظیمیں جو کھانے کے ساتھ رقمیں نہیں بانٹ رہی ہےں، لوگ اُن کے مینیو کو دیکھ کر لائن میں کھڑے ہوتے ہیں اگر کھانے میں آئس کریم ،کیک، پیسٹری یا مکھن نہیں ہوتا تو وہ یہ کہتے ہوئے کہ جیل کا کھانا ہے ، کہیں اور جگہ جاکر لائن میں لگ جاتے ہیں۔“ہوم لیس مین نے تفصیل بتاتے ہوئے کہابہرکیف نیرنگی سیاست تو دیکھئے کہ مسز لوریتا واشنگٹن ہائی اسکول کی پرنسپل لگ گئی ہیں۔ پہلے وہ اُسی اسکول میں بحیثیت نرس کے کام کیا کرتیں تھیں، جب اُنہیں یہ مژدہ ملا تو اُنہوں نے فورا”محکمہ تعلیم والوں کو فون کیا اور کہا کہ شاید اُن کا نام غلطی سے لاٹری میں نکل آیاہے ، ورنہ وہ نہ ہی تعلیمی یا تجربہ کے لحاظ سے اِس عہدہ کیلئے موزوں ہیں لہٰذا اُن کا نام خارج کر کے کسی اور کو پرنسپل بنا دیا جائے۔ محکمہ تعلیم کی جانب سے یہ جواب آیا کہ اُن کا نام خود وائس چانسلر نے منتخب کیا ہے کیونکہ وہ پہلے چانسلر بننے سے قبل خود بس کے ڈرائیور ہوا کرتے تھے۔ اُنکا موقف ہے کہ اسکول کے طلبا کو یہ باور کرایا جائے کہ اسکول کے پرنسپل اور ٹیچرز کا تعلق اُن کے طبقہ سے ہے اور وہ ڈراپ آ¶ٹ ہونے کے باوجود بھی اِن عہدوں پر فائز ہو سکتے ہیں، بشرطیکہ اُنہوں نے غلطی سے کبھی ٹیکس فائل نہ کردیا ہو۔ مسز لوریتا کے علاوہ اُسی سکول کے سپرنٹنڈنٹ ایک بھنگی کو لگا دیا گیا ہے، وہ گذشتہ 20 سال سے وہاں بحیثیت بھنگی کی ملازمت کرتا رہا ہے۔ سپرنٹنڈنٹ نے یہ خبر سنتے ہی فورا”جاکر اُس نے ایک جوتا، ایک قمیض اور پتلون اور دو ٹائی خرید لی۔ اُسکا کہنا ہے کہ وہ پہلے اسکول کے بچوں کو صبح آٹھ بجے سے 12 بجے تک فٹ بال اور بیسکٹ بال کی پریکٹس کروایا کرے گا اور پھر ایک گھنٹے وہ پڑھا لکھا کرینگے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here