امریکی حکومت نے تو کمال کردیا، ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے حاتم طائی کے قبر پر ایک نہیں دو لات ماردی ہو. قارئین کرام کی نظر سے شاید یہ خبر نہ گذری ہو کہ امریکی حکومت نے پاکستان کی امداد کیلئے ایک نئے پیکج کا اعلان کیا ہے، یہ پیکج بھی ایسا ہے جیسے کہ کتے کو ہڈی دینے کے مترادف ہو، ظاہرا”تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اِسکا تانا بانا غزہ میں اسرائیل کے قتل عام ،پانچ ہزار بچوں اور اتنی ہی تعداد میں عورتوں کی ہلاکت ، ہسپتال پر بمباری اور رہائشی علاقوں کو نیست نابود کردینے کے واقعات سے ملتا جلتا ہے اور یہ صریحا”پاکستانی عوام کی آنکھوں میں جھول ڈالنے کی ایک کوشش ناکام ہے۔ مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ اِس پیکج کا اعلان پاکستان میں امریکا کے سفیر ڈونلڈ بلوم نے اپنے دورہ گوادر کے موقع پر کیا . ماضی میں بھی امریکی حکومت کی یہ پریکٹس رہی ہے کہ جب بھی اُسے پاکستان کو جنگ میں جھونکنے کی ضرورت پڑی اُسے تیار کرنے کیلئے ہڈی کے چند ٹکرے پھینک دیئے گئے جب جمی کارٹر 1980 ء میں پاکستان کو روس کے مد مقابل کھڑا کرنا تھا تو اُنہوں نے بھی ایک پیکج کا اعلان کردیا تھا جس کی رو سے اُسی سال پاکستان کو 200 ملین ڈالر ملنے تھے، اُس رقم کا نصف حصہ امریکی حکومت سے اپنی فوج کیلئے اسلحہ خریدنے کیلئے مختص تھا جبکہ باقی رقم معاشی مد میں خرچ کرنے کیلئے تھی. سال 1981ء میں بھی امریکی امداد کی رقم 200 ملین ڈالر تک محدودرہی جسے اُس وقت کے صدر جنرل ضیاالحق نے موم پھلی قرار دیا تھا بہرکیف پاکستانی حکومت نے امریکا سے وہی رقم یا اُس سے کچھ زیادہ وصول کی تھی اور اُس کے بدلے پاکستان کی سالمیت کو داؤ پر لگادیا گیا تھا، پاکستان کو روس کے خلاف گوریلا جنگ میں شراکت داری کرنا تھی، پاکستان کو افغانستان کے بھگوڑوں کو اپنے ملک میں شاہانہ طور پر پناہ دینی تھی. اُن بھگوڑوں کی تعداد دس لاکھ کے قریب تھی جس میں نصف سے زائد جرائم پیشہ افراد تھے، اُن جرائم پیشہ افراد نے پاکستان میں جنگ و جدل، لوٹ مار ، ڈاکہ زنی، تاوان اور دہشت گردی کا ایک سرگرم ماحول پیدا کردیا تھاجس سے تنگ آکر لاکھوں کی تعداد میں خود پاکستانی اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے، یہ تھا 200ملین امریکی ڈالر کا صلہ؟ امریکی صدر جارج بش کے دور میں اُن کی عنایت پاکستان کے اوپر کچھ زیادہ ہی پڑگئی، کیونکہ 11 ستمبر کا واقعہ ہر امریکی کے دل و دماغ کو ہلاکر رکھ دیا تھا، اِسی لئے امریکی صدر جارج بش نے پاکستان کو 8.647 بلین ڈالر کی بڑی رقم سے نوازا تھاتاکہ پاکستانی فوج کو امریکی فوج کے ساتھ جنگ میں دھکیل سکیں تاہم 8.647 بلین ڈالر کی رقم امریکا سے آنے کے بعد امریکی کنٹریکٹرز اور امریکی فرموں کی ادائیگی کیلئے دوبارہ امریکا واپس چلی گئی، تو اِسکا مطلب یہ تھا کہ حکومت پاکستان کا خزانہ کچھ عرصہ بعد ہی خالی ہوگیا تھااور ساتھ ہی ساتھ طالبان کی دشمنی مولنے سے پاکستان کے ذرے ذرے سے بارود کی بو آنے لگی تھی. کچھ نہیں تو 40 لاکھ پاکستانی امریکا کی طالبان کے خلاف جنگ میں موت کی نیند سوگئے تھے اور بالآخر امریکا خود ہتھیار ڈال کر اپنے ملک واپس چلا گیا اور اُسی کے ساتھ دنیا کو قبضہ کرنے کا خواب بھی چکنا چور ہوگیا ۔
امریکی حکومت کا تازہ ترین پیکج ہماری سمجھ سے بالاتر ہے ، اتنی حقیر رقم سے اتنی بڑی توقع رکھنا ایک سر پھر اشخص ہی کرسکتا ہے. امریکی حکومت نے پاکستان میں نئے پولیس اسٹیشنز کی تعمیر کیلئے 58 کروڑ روپے دیئے ہیں . اِس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ پاکستان میں رہنے کیلئے گھر نہیں، کام کرنے کیلئے دفتر یا فیکٹری نہیں بلکہ ہر جانب پولیس اسٹیشنز ہی نظر آئینگے۔ 58 کروڑ کی رقم ہے ہی کتنی بڑی ، اِس سے وزرا کی کٹوتی، تعمیر کا کنٹریکٹ دینے والوں کا اپنا حصہ نکال دیں تو اُس رقم سے چار پولیس اسٹیشنز ہی تعمیر ہوسکیں گے لیکن امریکی حکومت نے مزید 58 کروڑ روپے پولیس اسٹیشنز کی اپ گریڈیشن کیلئے دی
ہے،اتنی مختصر رقم سے پاکستان کے ہزاروں پولیس اسٹیشنز میں کیا خاک اپ گریڈیشن ہوسکیں گے اگر ایک ایک پولیس اسٹیشن میں ایک دوات اور دو قلم ہی رکھ دیا جائے تو 58 کروڑ روپے خرچ ہو جائینگے،
البتہ انسداد دہشت گردی فوج کی تربیت کیلئے ایک ارب بیس کروڑ کی رقم امریکی حکومت نے پاکستان کو دی ہے جو بھی انتہائی قلیل ہے، انسداد دہشت گردی کیلئے پاکستان کو ایک لاکھ افراد کو تربیت دینی ہے، اگر ایک سپاہی کو ماہانہ تنخواہ 20 ہزار روپے بھی دی جائے تو صرف تنخواہ کی مد میں 2 ارب روپے خرچ ہونگے ، مطلب یہ کہ امریکی امداد کی رقم ایک ماہ کیلئے بھی ناکافی ہوگی،ضرورت اِس بات کی ہے کہ امریکا پاکستان کو امداد 20 یا 40 ملین ڈالر دینے کے بجائے 20 یا 40 بلین ڈالر کی رقم دے،
جیسا کہ اُس نے اسرائیل کو 50 بلین ڈالر کی رقم کی امداد دے کر ایک مثال قائم کی ہے۔
امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے اِس بات کی وضاحت نہیں کی کہ آیا ٹورسٹ ویزا یا امیگرانٹ ویزا کے اپائنٹمنٹ کے انتظار میں اب زیادہ مدت کا انتظار نہیں کرنا پڑیگا، حقیقت یہ ہے کہ بعض حضرات تو امیگرانٹ ویزا کے انتظار میں دنیا سدھار چکے ہیں اور اب بھی اُن کی اولادیں اپنی باری کا انتظار کر رہی ہیں. آخر اُن کی اولاد کی باری کب آئیگی؟ اُنہیں کب میڈیکل چیک اپ کیلئے بلایا جائیگا؟ اور کب اُن کی انٹرویو ہوگی؟ مردود اور بدقماش ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلم بین کا نعرہ لگاکر پاکستانیوں کے امیگریشن کی کاروائی کو روکا تھاتو توقع اب یہ تھی کہ ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومت میں وہ پابندی اٹھالی جائیگی لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آیا ڈیموکریٹک پارٹی ہو یا ریپبلکن سب کی سب مسلم دشمن ہیں۔