فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ
محترم قارئین! اُمّ المئومنین حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنھا کا وصال باکمال معتبر روایات کے مطابق قبل ہجرت بمطابق دس رمضان المبارک ہوا۔ ویسے تو حضور اکرمۖ کی رواح مطھرات رضی اللہ عنھُنّ کی تعداد میں علماء اختلاف رکھتے ہیں۔ جس قول پر اکثر کا اتفاق ہے وہ گیارہ کا ہے چھ ازواج مطھرات قریش میں سے تھیں۔ یعنی سیدہ خدیجة الکبریٰ، سیدہ عائشہ صدیقہ، سید حفصہ، سیدہ ام حبیبہ، سیدہ ام مسلمہ، سیدہ سودہ اور چار عربیہ غیر قریشیہ ہیں۔ یعنی سیدہ زینب بنت حجش، سیدہ میمونہ، سیدہ زینب بنت خزیمہ ہلالیہ ام المساکین، سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہ عنھن اور ایک غیر عربیہ بنی اسرائیل سے ہیں۔ یعنی سیدہ صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنھا یہ قبلہ بنی نفیر سے ہیں۔ وہ ازواج جو حضور اکرمۖ کی ظاہری زندگی مبارکہ میں فوت ہوئیں وہ دو ہیں! حضرت خدیجة الکبریٰ اور حضرت زینب بنت خزیمہ ام المساکین رضی اللہ عنھا۔ اور حضورۖ کے وصال باکمال کے وقت نواز مطھرات موجود تھیں۔ سب سے پہلے جن سے حضور اکرمۖ نے نکاح فرمایا وہ حضرت سیدہ خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنھا ہیں اور جب تک آپ حیات رہیں ان کی موجودگی میں حضور اکرمۖ نے کسی عورت سے نکاح نہیں فرمایا: اُم المئومنین رضی اللہ عنھا کا نسب نامہ یہ ہے۔خدیجہ بنت خویلدبن اسد بن عبدالعری بن قصی بن کلا بابن مرہ بن کعب بن لوی سیدہ کا نسب حضور اکرمۖ سے قصی میں مل جاتا ہے۔ ان کی کیفیت ام ہند ہ ہے اور ان کی والدہ فاطمہ بنت زاہدہ بن الاصم بن عامر بن لوی سے تھیں۔ ہند حضور اکرم ۖ کی ربیہ تھیں۔ نکاح کے وقت حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنھا کی عمر مبارکہ چالیس سال تھی اور آپۖ کی عمرمبارکہ پچیس سال تھی اور ایک قول کے مطابق اکیس سال تھی۔ جبکہ پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ بعض نے تیس سال کا قول بھی کیا ہے۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا عاقلہ، قاضلہ اور فرزانہ عورت تھیں۔ زمانہ جاہلیت میں ان کو طاہرہ کہتے تھے۔ مالی نسب اور بڑی مالدار تھیں۔ ابوہالہ عتیق کے بعد بہت سے صنا دیدو اشراف، قریش خواستگا رکھتے تھے کہ وہ ان سے نکاح کرلیں۔ مگر انہوں نے قبول نہ کیا۔ اور انہوں نے حضور اکرمۖ کے لئے خود کو پیش کیا۔ حضور اکرمۖ نے اس بات کا تذکرہ اپنے چچائوں سے کیا۔ اس کے بعد آپ ۖ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ خویلدبن اسد کے پاس تشریف لے گئے اور ان کو پیام دیا۔ آپ کا مہر انتیس جوان اونٹ تھے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ بارہ اوقیہ سونا تھا۔ اہل سیر بیان کرتے ہیں کہ خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنھا نے خواب میں دیکھا تھا کہ آسمانی آفتاب ان کے گھر اترآیا ہے۔ اور اس کا نوران کے گھر سے پھیل رہا ہے۔ یہاں تک کہ مکہ مکرمہ کا کوئی گھر ایسا نہیں رہا جو اس نور سے روشن نہ ہوا ہو۔ جب وہ بیدار ہوئیں تو یہ خوب اپنے چچا کے لڑکے ورقہ بن نوفل سے بیان کیا۔ اس نے اس خواب کی یہ تعمیر دی کہ نبی آخر الزماں تم سے نکاح کریں۔ سیدہ خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنھا پہلی عورت ہیں جن پر اسلام کی حقیقت روشن ہوئی۔ اور انہوں نے حضور اکرمۖ کی تصدیق کی اور اپنا تمام مال حضورۖ کی رضا میں خرچ کیا اور آپ ۖ کی تمام اولاد خواہ فرزند ہوں یا دختر سب انہیں سے پیدا ہوئے سوائے حضرات ابراہیم رضی اللہ عنہ کے جو سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنھا سے پیدا ہوئے تھے۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا تقریباً25سال آپۖ کی شریک حیات رہیں۔ وصال کے وقت آپ کی عمر مبارکہ یعنی سیدہ کی65سال تھی۔ مقبررہ حجوں یعنی جنت المعلیّ قبرستان میں مدفون ہوئیں۔ حضور اکرمۖ خود ان کی قبر میں داخل ہوئے اور دعائے خیر فرمائی۔ نماز جنازہ اس وقت ابھی شروع نہیں ہوئی تھی۔ آپۖ ان کی وفات سے بہت محزون وملول ہوئے۔ ان کی وفات کے سال کا نام ”عام الحزن” ہے۔ نبی پاک ۖ کی نسبت سے اللہ پاک نے انہیں دو یا تین صاحبزادے اور چار صاحبزادیاں عطا کیں۔ سب سے چھوٹی صاحبزادی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا ہیں۔ باقی سیدہ زینب، سیدہ رقیہ اور سیدہ ام کلثوم یا کلثوم بنات محمد بن عبداللہ ۖ وابیہ ہیں۔ اہل سیر بیان کرتے ہیں کہ حضورۖ جو غم و اندوہ اور تکلیفیں اٹھائے تھ وہ سب سیدہ خدیجہ کو دیکھتے ہی جاتی رہتی تھیں۔ اور آپۖ خوش ہوجاتے تھے۔ جب آپۖ سیدہ رضی اللہ عنھا کے پاس تشریف لاتے وہ آپ کی پاس خاطر فرمائیں جس سے ہر مشکل آسان ہوجاتی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بارگاہ رسالت مآب علیہ السلام میں جبریل علیہ السلام نے عرض کیا اے محمد!ۖ آپ کے پاس خدیجہ رضی اللہ عنھا دستر خوان لا رہی ہیں جس میں کھانا پانی ہے جب وہ لائیں تو انہیں ان کے رب کا سلام فرمانا اور میری طرف سے انہیں جنت میں موتیوں کے گھر کی بشارت دینا۔ جس میں نہ شوروغل اور نہ رنج ومشقت ہے اللہ تعالیٰ آپ رضی اللہ عنھا کے درجات بلند فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭