سلامت رہیں ۔ آپ نے آج اپنی فیس بک پر معاشرے کے ایک اہم موضوع کو چھیڑا ہے۔ آپ نے لکھا ہے،کیا شادی کے لیے صرف نکاح کے مفہوم کو سمجھنا ضروری ہے یا کہ نکاح کے ساتھ طلاق اور خلع کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ اگر ہم آہنگی نہ ہو سکے تو کیا طلاق یا خلع کی جانب بر وقت چلے جانا بہتر ہو گا یا کہ نہیں ۔ میں اِس موضوع کو نہایت اہم موضوع سمجھتا ہوں اور اختصار سے صرف اتنا عرض کروں گا کہ شادی سے قبل لڑکے اور لڑکی کو موقع ملنا چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کے مزاج اور عادات کو سمجھیں۔ شادی مرضی کی ہو جو کہ ہر انسان کا فطری، سماجی اور مذہبی حق ہے۔ زبردستی کی شادی( ایک غیر انسانی اور غیر اسلامی فعل ہے۔ میری رائے میں شادی کے دو سال تک نو بیاہتا جوڑا خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کرے تاکہ وہ دیکھیں کہ وہ عشق کی جذباتی دنیا سے نکل کر عملی دنیا میں احسن طریقے سے زندگی گزار سکتے ہیں یا نہیں ،یہ نہایت افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ آج کل طلاق کی شرح بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ اِس کی دو وجوہات ہیں۔ اول: لڑکے اور لڑکیاں تعلیم یافتہ ہیں اور نوکری بھی کرتے ہیں۔ کئی لڑکیاں بات بات پر خاوند سے کہتی ہیں کہ وہ اپنا کماتی ہیں اور خاوند کی محتاج نہیں ہیں۔ پہلے زمانے میں خواتین معاشی طور پر مردوں کی محتاج ہوتی تھیں اور سختیاں بہ امرِ مجبوری برداشت کرتی تھیں – اب اکثر خواتین بر سرِ روزگار ہیں اور بعض گھروں میں تو معمولی بات پر طلاقیں ہو رہی ہیں۔ برداشت کی کمی ان طلاقوں کا سبب بن رہی ہے۔ مغرب کا کلچر بھی اِس تباہی کاسبب ہے۔ بعض لڑکے اور لڑکیاں ناک پر مکھی کے بیٹھنے سے سر گشتہ ہوتے ہیں چاہے علاق لے کر یا دے کر ان کی ناک ہی کٹ جائے۔ جن لڑکوں یا لڑکیوں کو اپنے خاندان کی دولت اور افسری کا گھمنڈ ہوتا ہے وہ بھی تکبر کی سزا ساری زندگی بھگتے ہیں۔قرآن مجید اور حدیثِ رسول صلم میں شادی کا حکم ہے اور اسے احسن قرار دیا گیا ہے۔ طلاق دینا ہر مسلمان مردِ کا شرعی حق ہے اور خلع لینا ہر مسلمان عورت کا شرعی حق ہے۔ حدیثِ رسول صلعم میں طلاق کو غیر احسن عمل قرار دیا گیا ہے، دیکھنے میں آیا ہے کہ طلاق کی صورت میں بچے نفسیاتی طور پر تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔ایک طرف باپ تو دوسری طرف ماں ہوتی ہے۔ عدالتوں کے چکر اور مقدمہ بازیاں دونوں خاندانوں کو ذلیل و رسوا کر دیتی ہیں۔ ایسی افسوس ناک صورتِ حال میں خاوند اور بیوی اولاد کی بہتری کی خاطر معمولی معمولی باتوں کو انا کا مسئلہ نہ بنائیں اور شادی کو گڑیا کی شادی نہ سمجھیں۔ البتہ اگر طلاق از حد ضروری ہو جائے تو عدالتوں میں ذلیل و رسوا ہونے کی بجائے ازروئے قرآن اس عمل کو احسن طریقہ سے خاندان میں طے کریں اور باہمی دشمنی اور فتنہ و فساد سے دریغ کریں۔ میں اِس بات کو ایک مرتبہ پھر دھراں گا کہ شادی کے دو سال تک خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کیا جائے اور ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھا جائے۔ اگر مزاجوں اور معاملات میں ہم آہنگی ہو تو خوشی خوشی زندگی گزاریں اور اگر یہ شادی اجیرن ہو تو علیحدہ ہو جائیں اور نئی پرسکون زندگی گزاریں،اولاد والے اولاد کی خاطر قربانی دیں یا انانیت کے خول سے باہر نکل کر اولاد کی خوشی اور بہتری کے لیئے گھر کا ماحول خوشگوار بنائیں ۔ اللہ پاک سب کے گھروں کو آباد و شاد رکھے ۔ آمین
٭٭٭