اکیسواں رمضان اتوار کا دِن تزک و احتشام کا دِن تھا، شکاگو کے مسلمان ساری دنیا کے مسلمانوں کی طرح یاد خداوندی میں مصروف تھے، اپنی گناہوں کو ماہ رمضان میں معاف کرانے کیلئے صرف چند دِن باقی رہ گئے تھے، گناہوں کے علاوہ اپنی آخرت کو سنوارنے کی خواہش اور اِس کرہ ارض پر اپنی خوشحالی اور اہل و عیال کی کامیابی کیلئے دعا گو ہونا بھی اُن کی ترجیحات میں تھیں لیکن شکاگو کے ڈیس پلینس کی مسجد میں اکیسویں رمضان کے دِن ایک ایسا دھماکہ ہوگیا جس نے خصوصی طور پر وہاں کے مسلمانوں اور عمومی طور پر دنیا کے مسلمانوں کو سر نگوں کردیا، دنیا بھر میں مسلمانوں کے بارے میں جو عام رائے تھی کہ وہ انتہائی پُر امن اور مہذب یافتہ ہوتے ہیں ، وہ رائے بھی بلبلا بن کر ہوا میں اُڑ گئی. شکاگو کی مسجد میں نمازیوں کے دو گروہ ایک دوسرے سے الجھ گئے، اُنہوں نے اپنے تنازعات کو افہام و تفہیم کے ذریعہ حل کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے گریباں کو چاک کرنا شروع کردیا ، ایک دوسرے پر گھونسے کی بوچھار شروع کردی چند لوگوں کو تشدد کا اتنا زیادہ نشانہ بنایا گیا کہ مسجد میں ایمبولنس بلوانی پڑی،مرد تو مرد ، باریش بزرگ تو بزرگ عورتیں بھی اپنے دوپٹے اور برقعہ کمر میں باندھ کر اُسی دھکم دھکے میں کود پڑیں اور کئی لونڈوں کو سینڈل رسید کردیا، عورتیں آپس میں بھی لڑ پڑیں اور چیخ کر ایک دوسرے کو یہ کہنا شروع کردیا کہ ” تم نے میرے شوہر کو کیوں مارا” ، اُ نہوں نے ایک دوسرے کے بال بھی نوچ لئے، تنازعات کی ایک وجہ یہ تھی کہ مسجد کی انتظامیہ اکیسویں رمضان کی شب کھانے پینے کا کچھ اہتمام کیا تھا، کچھ نمازیوں کا جو اقلیت میں تھے اُن کا یہ موقف تھا کہ مسجد کا جو فنڈ کھانے پینے پر خرچ ہورہا ہے، اُس کی رقم کو کیوں نہ فلسطینیوں کی امداد کیلئے غزہ بھیج دی جائے،اُن کا کہنا تھا کہ امریکا میں مسلمان عیش و عشرت کر رہے ہیں، روزانہ ایک نا ایک پارٹی کا انعقاد ہورہا ہے ، اُن ریسٹورنٹس سے کھانے منگوائے جاتے ہیں جو یہودیوں کی مالی اور اخلاقی امداد کرتے ہیں ، فلسطینیوں کو جہنم واصل کرنے کا کھلے عام دعویٰ کرتے ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکی مسلمانوں کو اپنے فلسطینی بھائیوں سے ذرا برابر بھی ہمدردی نہیں ہے، اُنہیں اِس بات کا کوئی علم نہیں کہ غزہ میں بچے پانی کے ایک ایک قطرے کیلئے ترس رہے ہیں، روزانہ کی فاقہ کشی اُن کا معمول بن گئی ہے۔ قطع نظر اِن دعووں اور تقریروں کے جو سیاسی و مذہبی رہنما کرتے ہیں کوئی بھی فلسطینی بھائی کی امداد کیلئے ٹھوس اور واضح پلاننگ کی وضاحت نہیں کرتا ہے، غزہ رقمیں بھیجنا کوئی پاکستان یا بھارت قم بھیجنے جیسا نہیں ہے ، اِس کی راہوں میں ہزاروں روڑے ہیں، لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ فلسطینیوں کیلئے جو رقمیں جمع کی جارہی ہیں وہ کس طرح اُن تک پہنچیں گی، راقم الحروف نے جب ایدھی فاؤنڈیشن کے نمائندے سے یہ دریافت کیا کہ کیا اُن کا ادارہ فلسطینیوں کی امداد کیلئے کسی پیش رفت کا مرتکب ہوا ہے ؟ تو اُس نمائندے کا جواب نفی میں تھا، ذاتی طور پر میں نے ایدھی فاؤنڈیشن جیسے دوسرے بین الاقوامی چیریٹیبل اداروں جن میں یونیسف، ریڈ کراس اور ڈاکٹرز وِدھ آؤٹ بارڈرز شامل ہیں کا بغور اندازہ لگایا ہے ، جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فلسطینیوں کے نام پر جو امداد اکھٹا کی جارہی ہے کوئی ضروری نہیں کہ وہ فوری طور پر اُن تک پہنچ رہی ہیں،مزید برآں جو قانونی دشواریاں اِس ضمن میں پیش آسکتی ہیں کہ یہ اقدام منی لانڈرنگ کے زمرے میں بھی آتا ہے ، البتہ یہ ممکن ہے کہ کوئی امدادی رقم یا اشیا کو لے کر ذاتی طور پر غزہ یا ویسٹ بینک جائے اور اُسے وہ وہاں تقسیم کرے تو یہ ایک دوسری کہانی ہوگی، اِن گوناگوں حالات میں جب بھی آپ کا سابقہ کسی ایسے فرد سے پڑے جو فلسطینیوں کیلئے رقمیں جمع کر رہا ہو تو آپ برائے مہربانی اُس سے پوچھ لیں کہ وہ یہ رقم وہاں کس طرح پہنچائیگا۔بہرکیف دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ مذکورہ افسوسناک واقعہ کے پس منظر میں دوسرے تنازعات بھی تھے جس کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوے مسجد کی انتظامیہ نے دوسرے گروپ کے مطالبے کو کچل کر رکھ دیا، اُنہوں نے دوسرے گروپ کے لوگوں کو یہ باور کرادیا کہ سیکرٹری اور خزانچی بننے سے پہلے اُنہیں جنگ و جدل سے گزرنا پڑیگا، اِسی رمضان المبارک کے دوران شکاگو کی ایک دوسری مسجد میں ایک گروپ کے لوگوں کو مسجد کی انتظامیہ نے پٹائی کر دی تھی،مخالف گروپ کے لوگ یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ تراویح کے بعد کھانے میں حلیم بھی رکھی جائے ، لیکن مسجد کی انتظامیہ نے محدود بجٹ کے پیش نظر ایسا نہیں کیا تھا اور اُس کے بجائے اُن کی پٹائی کردی تھی،ایک اور مسجد میں ایک نوجوان کو تشدد کا نشانہ یہ الزام لگاکر بنایا گیا تھا کہ وہ مسجد میں آنے والی ایک لڑکی سے گفتگو کر رہا تھا،جب وہ نوجوان مسجد سے رخصت ہورہا تھا تو اُس لڑکی نے اُسے
چیخ کر کہا تھا کہ ” میں آرہی ہوں”،وہ نوجوان جوڑا مسجد سے واپس لوٹ گیا ، لیکن چند لمحہ بعد پولیس کے
ساتھ واپس آکر اُن لوگوں کی نشاندہی کرائی جنہوں نے اُس کی پٹائی کی تھی، پولیس نے اُن لوگوں کی خوب سرزنش کی اور یہ انتباہ بھی کیا کہ اگر اُس نوجوان نے دوبارہ پولیس سے رابطہ کیا تو وہ اُن سارے
شرپسندوں کو اندر کردے گی.شکاگو میں مسجد کے اندر دنگا مشتی کی واردات میں اضافے کی وجہ کر بہت سارے لوگوں نے مسجد جانا بند کردیا ہے ، اور نماز گھر پر ہی پڑھتے ہیں۔