کیا مسلمان واقعی کمزور ہیں؟

0
48
مفتی عبدالرحمن قمر
مفتی عبدالرحمن قمر

حضرت ربیع بن عامر رضی اللہ عنہ سپرپاور فارس کے شاہی دربار میں رستم کے سامنے انتہائی اعتماد کے ساتھ اور بے خوف کھڑے تھے۔ رستم غیظ وغضب کے عالم میں تلملا رہا تھا اور سوچنے لگا کہ یہ صحرائی میرے دربار کی شان و شوکت سے ذرا بھی مرعوب نہیں ہوا ربیع بن عامر رستم کے جواب کے منتظر تھے۔ وہ سفیر بن کے آئے تھے۔ بالآخر رستم نے غصے سے سر اٹھایا اور پوچھا اے ربیع ہم سے کیا چاہتے ہو۔ تمہارا مقصد کیا ہے آخر تم نے ایک سپرپاور سے ٹکر لینے کی کیوں ٹھانی ہے۔ حضرت ربیع نے جواب دیا ہمیںکچھ نہیں چاہیئے۔ ہمارے پیارے نبی کو ہم میں مبعوث کیا گیا اور ہمیں حکم ملا ہے کہ اللہ کا پیغام پوری دنیا تک پہنچائیں اللہ کا پیغام بڑا سادہ اور سیدھا ہے کہ ہم دنیا کو انسانوں کی غلامی سے آزاد کرائیں اور انہیں ایک خدا کی عبادت پر واپس لائیں۔ دنیا کی تنگیوں سے نکال کر آخرت کی وسعتوں میں لے جائیں اور دنیاوی ظالم ادیانن سے نکال کر اسلام کے نظام عدل میں واپس لے جائیں آپ غور کریں حضرت ربیع بن عامر کسی سپرپاور کا سفیر تھا۔ دنیاوی وسائل سے مالا مال وسائل کا نمائندہ تھا۔ کسی افرادی قوت سے بھرپور ملک کا نمائندہ تھا۔ کسی بے پناہ زراعتی ملک کا نمائندہ تھا۔ آخر کیا وجہ تھی کہ ربیع بن عامر کسی شئی سے مرعوب نہیں تھا۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ میرے پاس جو دولت ایمان ہے۔ اس کے سامنے دنیا کی کوئی طاقت ٹک نہیں سکتی۔ ہم مسلمان اس وقت دولت میں افرادی قوت ہیں۔ فوج میں زراعت میں خود کفیل ہیں۔ ہمارے پاس سونے کے جہاز میں قیمتی بحری بیٹرے ہیں۔ اربوں ڈالر ہمارے بیرونی بینکوں میں جمع ہیں۔ اقتدار ہمارے ہاتھوں میں ہے حتی کہ بعض ممالک میں ہمارے پاس بادشاہ بھی موجود ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہم کمزور ہیں۔ جی ہاں ہمارے پاس ایمان نہیں ہے اگر ہے تو تھپکی دے کر سلا دیا ہے۔ اقتدار مال ودولت کے حصول کے لئے ہم نے اسلام کو پیچھے دھکیل دیا۔ اب ہمارے پاس سب کچھ ہے۔ مگر ایمان نہیں ہے۔ ایمان ہو تو ایمانی غیرت کچھ نہ کچھ کرنے کی ہمت رکھتی ہے۔ جب ایمان ہی نہ رہا تو ایمانی غیرت کسی کفر ملت واحدہ کی طرح اپنا فریضہ سرانجام دے رہا ہة۔ جس کی تازہ مثالیں آپ یو این میں دیکھ رہے ہیں۔ جہاں اسلام اور مسلمانوں کے مسائل اجاگر کرنے کیلئے درخواست دیں گے اول توووٹنگ میں حصہ نہیں لیں گے۔ اگر لیں گے تو ویٹو کر دیں گے اے اہل ایمان اٹھو ایمانی غیرت کو جگائو۔ زندگی چار دن کی ہے۔ آگے حساب دینا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here