پاک روس بڑھتے روابط!!!

0
5
شمیم سیّد
شمیم سیّد

اب جبکہ دنیا Unipolar سے Multipolar نظام کی طرف بڑھ چکی ہے جس میں امریکہ کے ساتھ ساتھ چین، روس اور یورپی یونین، عالمی سیاسی اور اقتصادی نظام میں اہم کردار کی حامل طاقتیں ہیں۔ خصوصا امریکہ اور چین کے مابین بڑھتی ہوئی مسابقت کی بدولت روس جیسی عالمی طاقت کا کردار اہمیت کا حامل ہے اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کے لیے روس کے اس کردار کو نظر انداز کرنا بہت مشکل ہے۔ پاکستان اور روس نے 18ستمبر کو تجارت، توانائی ، علاقائی روابط اور مضبوط دفاعی تعلقات کے ذریعے دو طرفہ تعلقات کو بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔اس عزم کا اظہار پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے روس کے نائب وزیراعظم الیکسی اوورچک اور پاکستان کے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کے مابین مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کیا گیا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ گزشتہ اڑھائی سال سے روس، یوکرین کے ساتھ جنگ میں الجھا ہوا ہے۔ پاکستان کے لیے روس کی اہمیت اس وجہ سے بھی زیادہ ہے کہ ماضی میں روس اور بھارت کے باہمی تعلقات ہمہ جہتی نوعیت کے رہے ہیں جن میں دونوں ملکوں کے مابین دفاعی تعلقات مثالی رہے ہیں جن کا بلاواسطہ گہرا اثر پاکستان پر پڑتا رہا ہے۔ ابتدائی دہائیوں میں پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات خوشگوار نہیں رہے البتہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پاکستان نے روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانا شروع کیا۔ انہوں نے پاکستان کے وزیراعظم کی حیثیت سے روس کے دو دورے کیے اور ان کی کوششوں کے نتیجے میں روس کے تعاون سے پاکستان میں سٹیل مل قائم ہوئی۔ اب ایک دفعہ پھر پاکستان، روس کے تعاون سے کراچی میں ایک نئی سٹیل مل قائم کرنے کی تجویز پر غور کر رہا ہے اور دونوں ممالک نے اس منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے ورکنگ گروپ بنانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے روس کے صنعت و تجارت کے نائب وزیر کو بتایا گیا ہے کہ غیر فعال پاکستان سٹیل ملز کا 700 ایکڑ رقبہ ایک نئی سٹیل پیدا کرنے والی سہولت کے قیام کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ مجوزہ سائٹ کراچی میں واقع ہے اور پورٹ قاسم کے قریب ہے جس سے خام مال کی نقل و حمل کی لاگت کم ہوتی ہے۔ پاکستان کی گھریلو پیداوار اور لوہے اور سٹیل کی طلب کے درمیان ہمیشہ سے فرق رہا ہے جبکہ پچھلے سال کے لیے اس فرق کا تخمینہ 3.1 ملین ٹن لگایا گیا ہے۔ دوسری طرف، پاکستان میں خام لوہے کے کافی ذخائر (تخمینہ 1,887 ملین ٹن) ہونے کے باوجود پاکستان تقریبا 2.7 بلین ڈالر کا لوہا اور سٹیل درآمد کرنے پر مجبور ہے۔ پاکستان میں نئی سٹیل مل کے قیام میں روس کا تعاون دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوگا۔ روس کے ساتھ بڑھتی ہوئی شراکت داری اور تعاون، گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی مرکزی ترجیح رہی ہے۔ پاکستان اور روس کے تعلقات ایک طویل سفر طے کر چکے ہیں اور دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں دونوں ملکوں کی سابقہ حکومتوں نے اپنا کردار ادا کیا جن میں اپریل 2005 میں اس وقت کے روسی وزیراعظم کا دورہ پاکستان جبکہ 2011 میں صدر آصف علی زرداری (جو اس وقت پاکستان کے صدر تھے) نے روس کا دورہ کیا۔ ان دوروں سے روس اور پاکستان کے تعلقات میں ایک نئی شروعات ہوئی جسے آنے والی قیادت نے مزید آگے بڑھایا۔ روس کی قیادت کا حالیہ دورہ بھی اسی سلسلے کو آگے بڑھانے کی کڑی معلوم ہوتاہے۔ پاکستان اور روس شنگھائی تعاون تنظیم کے بھی رکن ہیں جس کا سربراہ اجلاس اگلے ماہ اسلام آباد میں ہورہا ہے جس میں روسی وزیر اعظم میخائل مشسٹن شرکت کریں گے۔ روس کے نائب وزیراعظم کے حالیہ دورے میں وفود کی سطح پر ہونے والی بات چیت کے دوران دونوں ممالک کے درمیان کئی ایم او یوز پر دستخط ہوئے ہیں جن میں فریقین نے روس پر بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود تجارت کو بڑھانے اور لاجسٹک رکاوٹوں پر قابو پانے کے لیے مختلف آپشنز تلاش کی ہیں۔ عالمی سیاست میں، ملکوں کے مابین دیرپا اور پائیدار تعلقات کے قیام کے لیے ان کے عوام کے مابین براہِ راست روابط سمیت تعلیمی اور ثقافتی وفود کے تبادلے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سرد جنگ کی وجہ سے ہونے والی عالمی دھڑے بندی کے نتیجے میں پاکستان اور روس کے درمیان تعلیمی اور ثقافتی وفود کے تبادلے بہت کم رہے ہیں۔ روسی نائب وزیراعظم مسٹر اوورچک کے حالیہ دورے کے دوران ہونے والی بات چیت میں ثقافتی اور تعلیمی تبادلوں پر بھی بات کی گئی ہے اور خوش آئند بات یہ ہے کہ دونوں ممالک “عوام سے عوام کے تعلقات” کو مزید گہرا کرنے کے خواہاں ہیں۔ اسی طرح دونوں ملکوں میں باہمی تجارت کا حجم بہت کم رہا ہے البتہ اس وقت باہمی تجارت کا حجم تقریبا ایک ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ دونوں ملکوں نے باہمی تجارت کو مزید بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ صدر ولادی میر پیوٹن کی قیادت میں روس نے بارہا یہ عندیہ دیا ہے کہ اگر اِسے عالمی نظام میں الگ تھلگ کرنیکی کوشش کی گئی تو اس کے پاس بین الاقوامی نظام کو غیر مستحکم کرنے کی صلاحیت ہے۔ جس کی واضح مثال روس کا یوکرین پر مارچ 2022 میں کیا گیا حملہ ہے جس کے نتیجے میں شروع ہونے والی جنگ ابھی تک جاری ہے۔یہ بات بھی ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ یوکرین کو امریکہ سمیت تقریبا تمام یورپی ممالک کی طرف سے بھرپور مالی اور فوجی امداد مہیا کی رہی ہے۔ بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ روس کے پاس یورپ میں امریکی بالادستی کو چیلنج کرنے کے لیے فوجی طاقت کا فقدان ہے، جبکہ عالمی سطح پر تو کوئی بھی خاص طور پر نیٹو اتحادی روس کی جوہری صلاحیتوں کو نظر انداز نہیں کر رہا ہے، جس کا ثبوت نیٹو ممالک کا جنگ میں براہِ راست مداخلت سے انکار ہے۔ امریکہ اور چین کے مابین تزویراتی مسابقت جبکہ روس اور چین کے مابین بڑھتی ہوئی قربتوں کے تناظر میں پاکستان جیسے ملکوں سے روس کا اپنے تعلقات کو گہرا کرنا ایک خاص اہمیت کا حامل ہے، خصوصا جب پاکستان اور چین کے مابین سٹریٹجک اور دیرپا تعلقات ہوں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اپنے قومی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے سرد جنگ کے دور کی “بلاک پالیٹکس” کا شکار نہ ہو۔ دوسری طرف ماسکو اِیشیا، افریقہ، لاطینی امریکہ اور خاص طور پر مشرق وسطی کے ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لیے ہتھیاروں کی فروخت اور فوجی سطح کے تعلقات کو بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔تنازعات کے ساتھ ساتھ روس پر مغربی پابندیوں کے نتیجے میں،خوراک اور توانائی کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتوں کی بدولت بڑھتے ہوئے اخراجات کا دباو عالمی سطح پر پھیل گیا ہے، بلکہ عالمی سطح پر اثرورسوخ کے لیے ایک سفارتی جنگ شروع ہوگئی ہے جو واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان سرد جنگ جیسے تعطل کی بازگشت ہے۔ اگرچہ روس اب ایک بڑی طاقت نہیں ہے، لیکن صدر پیوٹن کی قیادت میں، روس نے دنیا بھر میں اپنے اثر و رسوخ کو دوبارہ قائم کیا ہے۔ماسکو نے بیجنگ کے ساتھ اپنے اِقتصادی اور فوجی روابط بڑھانے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here