گاڑی کا ٹائر بائی بوٹ آرہا تھا!!!

0
6
حیدر علی
حیدر علی

جب میں نے استفسار کیا کہ ٹائر کہاں سے اور کس طرح آرہا ہے تو وال مارٹ کی گوری منیجر نے جواب دیا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ نیو اورلینڈسے بائی بوٹ نیویارک آرہا ہے، اُس نے مجھ سے یہ سوال بھی کیا کہ کیا میں نے بائی بوٹ ٹائر منگوانے کی خواہش ظاہر کی تھی، یہ سن کر تو اچانک ہمارا بلڈ پریشر آسمان سے باتیں کرنے لگا، آخر میں بائی بوٹ ٹائر منگوانے کی کیوں گذارش کی ہوتی، سارے لوگ جو وال مارٹ سے آن لائن خریداری کرتے ہیں اُن کی اشیا فیڈرل ایکسپریس سے ڈیلیو یری کی جاتی ہے، خود میرے گھر کی گھنٹی کو ایمازون اور فیڈرل ایکسپریس والے یوں بجاتے ہیں جیسے یہ اُن کے باپ کی جائیداد ہو، اور میرا سونا محال کردیتے ہیں اور پھر میری گاڑی ایمرجنسی ٹائر کے ساتھ سڑک پر پڑی ہوئی ہے، میں نے جیسے محسوس کیا کہ ٹائر وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت کی طرح پنکچر ہوگیا ہے تو میں فورا” اُسے ریپئر شاپ لے کر گیا، جب آدھے گھنٹے کے بعد میری باری آئی تو مکینک صاحب نے فورا”ارشاد فرمایا کہ اِس کا ٹائر ڈھوں شوں ہوگیا ہے ، مجھے نیا ٹائر لگانا پڑیگا، وہ تیزی سے اپنے فلش لائٹ کے ساتھ ٹائر تلاش کرنے چلے گئے، میں سمجھ گیا کہ حالات کس طرف جارہے ہیں، کم از کم 150 ڈالر کی شامت اعمال نازل ہوگئی ہے لیکن خوش قسمتی سے ریپیئر شاپ میں ہماری گاڑی کا ٹائر موجود نہ تھا، میں نے وجہ دریافت کی تو مکینک صاحب نے فرمایا کہ نیلام گھر سے خریدی ہوئی گاڑی کے ہر پُرزے کا ملنا مشکل ہوتا ہے، اب میں مکینک صاحب کو کس طرح بتاتا کہ یہ گاڑی ضرور فلاڈیلفیا کے نیلام گھر سے خریدی ہوئی ہے ، لیکن اِس کی انجن اور ٹرانسمیشن بالکل درست ہے لیکن اِس کے ساتھ ہمارا معاشقہ بھی بہت پرانا ہے اور اِسی گاڑی سے میں امریکا کے چپے چپے کی سیر کرچکا ہوں، بعض اوقات تو دوسرے ڈرائیور اپنی گاڑی سے اُتر کر اِسے دیکھنے کیلئے چلے آتے ہیں، وجہ اِس کی یہ ہے کہ اِس کی شکل نوادرات کے نمونے سے ملتی جلتی ہے، ٹھیک ہے آپ یہ کہیں گے کہ اِسے توشہ خانہ کی زینت بننا چاہئے تھا، وہ اِس لئے نہیں بنی کہ ملک کے وزیراعظم اِس کی پاکٹ مار لیتے لیکن مکینک صاحب نے ہماری گاڑی کے بارے میں جو ریمارکس دیئے تھے وہ انتہائی قابل اعتراض تھے اور مجھے اِس کی سرزنش کرنی چاہیے تھی، یہ دیسی مکینک نہ کسی سکول جاتے ہیں ، اور نہ ہی تعلقات عامہ کی اے بی سی سے اِن کی کوئی واقفیت ہوتی ہے، بس صبح اٹھتے ہی گاڑی کا ٹائر بدلنا شروع کردیتے ہیں، میں چاہتا تو بہت کچھ کر سکتا تھا ، لیکن میں نے اُنہیں صرف یہ کہہ دیا کہ وہ کسی اور کو یہ نہ بتائیں کہ ہماری گاڑی نیلام گھر سے خریدی ہوئی ہے،میں نے مکینک صاحب کو یہ بھی کہہ دیا کہ ازرائے مہربانی وہ ہماری گاڑی میں صرف ایمرجنسی ٹائر لگادیں اور بعد میں نیا ٹائر لگا دینگے، اُنہوں نے ہماری گزارش کی تعمیل کی لیکن شاید نئے ٹائر کے مفہوم سے آپ آگاہ نہیں، ریپیئر شاپ میں نئے ٹائر لگانے کا مطلب اپنی پاکٹ سے ڈیڑھ سو ڈالر کی خلاصی کرنا ہوتا ہے اگر آپ مجھ جیسے تیز و تند نوجوان ہیں تو اِس رقم کی نصف کو با آسانی بچا سکتے ہیں لہٰذا میں نے بھی یہی کیا، گھر پہنچتے ہی اپنے لیپ ٹاپ پر ٹائر کی تلاش شروع کردی، فورا”ہی وال مارٹ کا ایپ میرے سامنے آگیا، جیسے کہ یہ بنایا گیا تھا میرے لئے، نیا ٹائر جس کا نمبر ٹھیک وہی جو ہماری گاڑی میں لگتا ہے ، میرے سامنے منڈلارہا تھا، قیمت صرف 70 ڈالر جس میں آپ مزید بیس ڈالر اِنسٹالیشن کیلئے اضافہ کردیں ورنہ ہٹے کٹے پنجابی نوجوان یہ کام خود ہی کرلیتے ہیں،بہرکیف نوے ڈالر میں آپ کی گلو خلاصی ہوگئی ، ریپیئر شاپ میں آپ کو 150 ڈالر دینے پڑتے،البتہ یہ مسئلہ ہمارے لئے باعث تشویش تھا کہ میرا ٹائر نیو اورلینذ سے بذریعہ ہوائی جہاز آنے کے کشتی کے ذریعہ آرہا تھا، کشتی ڈوب بھی سکتی تھی، اِسی لئے میں نے وال مارٹ والوں کو دِن میں دو مرتبہ کال کرنا شروع کردیا، اور جب بھی میں کال کرتا تھا تو وہی گوری منیجر مجھ سے باتیں کرنے لگتی تھی، بلکہ مجھے بہلانا شروع کر دیتی تھی، کئی مرتبہ تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ میں اُسے ڈنر پر لے جانے کیلئے مدعو کردوںبہر نوع مٹھاس لہجے میں یا یہ کہیے کہ رومانٹک لہجے میں گفتگو کرنے کا یہ فائدہ ہوا کہ اُس نے مجھے یہ یقین دہانی کرادی کہ ہمارا ٹائر وقت مقررہ سے دو دِن قبل مجھے مل جائیگا، اِسی لئے تو حضرت علامہ صاحب فرماگئے ہیں کہ پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر -مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر لیکن جب میں نے اُس سے پوچھا کہ وہ آخر کیسے ؟ اُس کا جواب سُن کر میرے تلوے تلے زمین نکل گئی، ایئر بورن ایکسپریس سے میں نے اُس سے کئی مرتبہ پوچھا کہ وہ آخر کیسے؟ ہر مرتبہ اُس کا جواب یہی تھا کہ ایئر بورن ایکسپریس، اُس نے وضاحت کرتے ہوئے پھر کہا کہ جب بوٹ مسیسپی پہنچے گی تو فیڈرل ایکسپریس کا عملہ اُس میں سے میرے ٹائر کو نکال کر ایئر بورن ایکسپریس کے ذریعہ نیویارک بھیج دیگا، اُس کی باتیں سن کر تو میری باچھیں کھل گئیں، میں نے سوچا کہ چلو اب میں اپنی گاڑی چلاؤنگا، لوگوں سے اُن کی گاڑی مانگنے سے اُن کی کڑوی باتیں سننی پڑتی ہیں، مثلا”جب میں اپنی بیٹی سے گاڑی مانگتا ہوں تو اُسکا جواب ہوتا ہے کہ ” یہ 2006 ء کی بولبو ہے کوئی کٹارا نہیں، ذرا سنبھال کر چلائیے گا” جب بیٹے سے مانگتا ہوں تو اُس کا جواب اور بھی زیادہ کھرا ہوتا ہے، بس یہی کہ ” میں آج شام پارٹی میں جارہا ہوں، کل میٹنگ میں جاؤنگا اور پرسوں شادی میں” میں جواب دیتا ہوں کہ ” برخوردار میں ٹیسلا چلانے کا تجربہ حاصل کرنا چاہتا ہوں ” لیکن ٹیسلا شاعروں، ادیبوں اور کالم نگاروں کیلئے نہیں بنائی گئی ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here