ساتھویں قسط
جامعہ ازہر کے شعبہ عربی ادب کے استاد پروفیسر ڈاکٹر رزق مرسی ابوالعباس صاحب اپنے تحقیقی مقالہ بنام احمد رضا خاں مصباح ہندی بلسان عربی” کے اندر بصمیم قلب سیدی اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز کے فکروفن اور زبان وبیان کا یوں اعتراف کرتے ہیں۔ ”ان ربّنا تبارک وتعالیٰ افاض علیہ خضم ھائل من الفکرومع ذالک لم یحرم العاطفة فرزقہ عینافی قلبہ فیاضة بالشعروسانایتغنی باجلی الکلمات العربیة” یعنی ربّ قدیر نے امام احمد رضا خاں کو علوم وافکار کا بحرنا پیدوکنار بنایا تھا۔ اس پر مستزادیہ کہ رب نے انہیں جوش وولولہ سے بھی محروم نہ رکھا۔ ان کے دل کے نہاں خانے میں ایک ایسا چشمہ جاری فرمایا جو بشکل اشعار اُبلتا رہتا اور ایسی زبان عطا کی تھی کہ جس سے حلاوت انگیز عربی الفاظ وکلمات کی نغمگی کی صدائیں آتی رہتی تھیں۔ اسی مقالے میں موصوف حقائق کی عقدہ کشائی کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ”فشاعرنا رجل حاذق تعددت اغراضہ الشعریہ واسمع لی ایھا القاری العزیز اقول لک انہ احمد رضا خاں شاعر محیر العقول مکتمل والعاطفة جیاشة والا حساس عین فوارة ولسانہ طبع الفاظہ تاتیہ مستملحہ غیر مستکرھة فی اغلب الاحیان متمسک غایة التمسک بتراث اجدادناالعرب”۔
ترجمہ:۔ ہمارا شاعر انتہائی قابل ہے، اس کے شعری مقاصد متعدد جہتوں کو محیط ہیں۔ اے پیارے قاری بغور میری بات سن کہ امام احمد رضا کی مقدس ہستی محیرالعقول شاعر، جامعیت سے متصف، پرجوش جذبات سے مملو، چشمئہ رواں کی طرح احساس اور فصاحت وبلاغت کی پیکر زبان کی متحمل ہے۔ ان کے مستعمل الفاظ غرابت سے عاری اور بے حد شستگی وکشش سے آراستہ ہوتے ہیں۔ بسا اوقات ہمارے عرب آباء واجداد کی تراث نظر آتے ہیں۔ حیات مولانا احمد رضا خاں کے اندر مندرج ہے کہ سیدی اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز نے تقریباً اکیس علوم اپنے والد گرامی سے حاصل کئے اور تیس سے زائد علوم ایسے ہیں جن کے بارے میں آپ خود فرماتے ہیں کہ میں نے انہیں کسی استاد سے حاصل نہیں کیا بلکہ یہ علوم فیض آسمانی سے میرے سینے میں القا ہوگئے۔ ان علوم میں خصوصیت کے ساتھ ارثما طیقی، جبرومقابلہ حساب یعنی، لوگارثم، علم التوقیت، زیجات، مثلث کردی، مثلث سطح، ہیئت جدیدہ، مربعات، علم جفر شامل ہیں۔
٭٭٭