”تباہ کن افراط زر ”
1985میں جب میں یہاں آیا تو 100ڈالر میں گھر کی ساری گروسری آ جاتی تھی جس میں پورا بکرا ، درجنوں چکن، قیمہ اور دودھ شامل تھا، اب صرف 100ڈالر میں ایک بکرے کی ران ملتی ہے ، اب میں سوچتا ہوں کہ میرے بچوں کو میری عمر میں شاید پائو گوشت 100ڈالر میں ملے گایہی حال دیگر مسلم و پاکستانی کمیونٹی کا بھی ہے جن کا مہنگائی سے برا حال ہے ، لوگ اپنے اخراجات کو بڑی مشکل سے پورا کرنے پر مجبور ہیں۔امریکہ میں گزشتہ ماہ کے دوران کھانے پینے کی اشیا، گھریلو استعمال کی چیزوں، ایندھن اور پرانی گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔مہنگائی بڑھنے سے جہاں خاندانوں کی مشکلات بڑھی ہیں وہیں چھوٹے تاجروں پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔امریکہ کے لیبر ڈپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق کنزیومر پرائس انڈیکس میں گزشتہ برس کے مقابلے میں تین فی صد اضافہ ہوا ہے جب کہ پچھلے مہینے کے مقابلے میں یہ 2.9 فی صد بڑھی ہے۔کنزیو پرائس انڈیکس گھریلو استعمال کی عمومی اشیا اور کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں میں رد و بدل کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سے اجناس اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں تبدیلی کا پتا چلتا ہے۔کنزیومر پرائس انڈیکس کی ستمبر 2023 میں شرح 2.4 فی صد تھی جوساڑھے تین سال کے دوران کم ترین شرح تھی۔امریکہ میں ضروری اشیا کی قیمتوں میں دسمبر 2024 کے مقابلے میں جنوری 2025 میں 0.5 فی صد اضافہ ہوا ہے، ِقیمتوں میں حالیہ اضافہ اگست 2023 کے بعد سب سے بڑا اضافہ ہے۔اسی طرح گروسری یعنی گھریلو استعمال کی اشیا کی قیمتیں جب گزشتہ ماہ بڑھیں تو اس سے انڈوں کی قیمت میں بھی 15.2 فی صد اضافہ ہو گیا۔ یہ انڈوں کی قیمت میں جون 2015 کے بعد سب سے بڑا اضافہ تھا۔پرندوں میں برڈ فلو پھیلنے کے خدشات کے سبب امریکہ میں انڈوں کے بیوپاری مرغیاں تلف کر رہے ہیں جس کے سبب انڈوں کی فراہمی بھی متاثر ہوئی ہے۔امریکہ میں انڈوں کی قیمت گزشتہ برس کے مقابلے میں 53 فی صد بڑھ چکی ہیں جب کہ انڈوں کی کمی کے سبب مارکیٹوں میں صارفین کو صرف محدود تعداد میں ہی انڈوں کی خریداری کی اجازت ہے۔ اسی طرح ریستورانوں میں انڈوں سے بنے پکوان اضافی قیمت میں فروخت ہو رہے ہیں۔لیبر ڈپارٹمنٹ کے حالیہ اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ فیڈرل ریزرو نے سالانہ دو فی صد افراطِ زر کا ہدف مقرر کیا تھا لیکن امریکہ میں لگ بھگ چھ ماہ سے افراطِ زر کی شرح اس سے بلند رہی ہے۔ اس سے قبل ڈیڑھ سال تک اس میں کمی آ رہی تھی۔ مہنگائی میں اضافے کے سبب ممکنہ طور پر امریکہ کا فیڈرل ریزرو فی الحال شرح سود میں مزید کمی نہیں کرے گا۔یو ایس فیڈرل ریزرو سسٹم بینکنگ کا مرکزی نظام ہے جو امریکہ کے مالیاتی امور کو دیکھتا ہے۔امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس صدارتی الیکشن کی مہم کے دوران عندیہ دیا تھا کہ وہ اشیا کی قیمتوں میں کمی لائیں گے البتہ بعض اقتصادی ماہرین خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ موجودہ حکومت کے عائد کردہ ٹیرف یعنی مختلف ممالک سے درآمد ہونے والی اشیا پر ڈیوٹی بڑھانے سے عارضی طور پر قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔مہنگائی بڑھنے کے سبب اس کے اثرات دوسرے سیکٹرز پر بھی پڑ رہے ہیں۔امریکہ میں کاروں کی انشورنس مسلسل بڑھ رہی ہے۔ گزشتہ دو ماہ میں اس میں دو فی صد اضافہ ہوچکا ہے۔ ملک میں گاڑیوں کے لیے ایندھن کی قیمتوں میں بھی 1.8 فی صد اضافہ ہوا ہے۔افراط زر بڑھنے سے صرف اخراجات ہی نہیں بڑھتے بلکہ معاشرے میں جرائم کی سطح میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے ، امریکہ میں”کنزیومر پرائس انڈیکس”اس وقت ڈھائی فیصد پر ہے جو دوہزار بائیس میں تقریبا چالیس سال کی بلند ترین سطح پر تھااور اسی وجہ سے امریکی فیڈرل ریزور ملک میں شرح سود کم کرنے کا عندیہ دے رہا تھا۔امریکی حکومت نے بدھ کے روز بتایا کہ ملک میں جون میں افراط زر کی شرح پچھلے چار دہائیوں میں سب سے اونچی سطح پر پہنچ گئی ہے جبکہ کنزیومر قیمتیں گزشتہ برس کے مقابلے میں 9.1 فیصد بڑھ گئی ہیں۔مئی سے جون کے درمیان ہر ماہ قیمتوں میں 1.3 فیصد کا اضافہ ہوتا رہا حالانکہ اپریل سے مئی تک قیمتوں میں صرف ایک فیصد اضافہ ہوا تھا۔آمدنی کے مقابلے ضروری اشیاء کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں، کم آمدنی والے گروپ اس سے بالخصوص متاثر ہورہے ہیں کیونکہ ان کی آمدنی کا بہت بڑا حصہ لازمی اشیاء مثلاً خوراک، ٹرانسپورٹیشن اور مکان کے کرایے ادا کرنے پر خرچ ہوجاتے ہیں،میری ساری تحریر کا نتیجہ یہ ہے کہ آئندہ دنوں، مہینوں اور سالوں میں حالات مزید چیلنجنگ ہونے والے ہیں ، کوئی بھی کام آسان نہیں ہوگا۔ہم سب کو چاھیے کو مہنگائی بارے اپنے اپنے علاقے کے کونسل مین یا اسمبلی مین یا سینیٹر واں کو اس جانب توجہ دلائیں تاکہ وہ بھی اس بارے سوچیں کیونکہ کل اْنہوں نے نے پھر سے ووٹ لینے آنا ہے۔
٭٭٭