شرم نہیں آتی…!!!

0
24
ماجد جرال
ماجد جرال

غالب نے کہا تھا کہ!
” کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی”
پاکستان کی تاریخ پر جتنا بھی لکھا گیا، سب امیدی اور نا امیدی کا مجموعہ ہے، مگر نہ جانے کیوں حالات کی بہتری، جمہوریت کی مضبوطی، غریب کی حالت کا سنبھل جانے سمیت کتنے ہی مسائل ایسے ہیں کہ جن کا سوچ کر غالب کا یہی شعر یاد ا جاتا ہے۔معلوم نہیں کہ شاعری میں یہ خوبصورتی کیونکر ہے، پڑھنے والے کو اپنے حالات کسی نہ کسی صورت اس میں جھلکتے نظر آتے ہیں، خصوصا پاکستان کے ٹھیکے دار جب اپنے حال دل کو بیان کرتے ہوئے رو پڑتے ہیں کہ وہ کس قدر اس ملک کی خدمت کرنا چاہتے تھے مگر ان کو موقع نہیں دیا گیا تو غالب کا یہ شعر پھر ذہن میں کود پڑتا ہے۔
“پہلے آتی تھی حال دل پر ہنسی۔
اب کسی بات پر نہیں آتی”
بظاہر یہ درست نہیں کہ ٹھیکے داروں کے رونے پہ ہنسی والا شعر مناسب نہیں مگر سبھی جانتے ہیں کہ یہ رونے والے اندر سے عوام کو بے وقوف بنانے کے بعد ہنس رہے ہوتے ہیں۔حقیقت میں اس تصویر کا ایک اور رخ بھی ہے، وہ ہماری عوام کا جذباتی پن اور سیاسی وابستگی میں اندھا ہو جانا ہے۔ کب ہم لوگ یہ سوچ کر ووٹ کریں گے کہ کارکردگی حقیقت میں کس کی اچھی رہی، پروپگنڈے کا شکار ہو کر ہمارے خیالات ہی بدل جاتے ہیں اور فیصلہ کن مراحل یعنی انتخابات میں ہم ہوش کی بجائے صرف جوش سے کام لیتے ہیں، جس کے بعد اگلے پانچ سالوں تک فوجی اسٹیبلشمنٹ اور سیاست دان پھر اپنے کام خوب نکالتے ہیں۔عوام تو چلو عوام ہوئی مگر اصل ذمہ داری تو ان سیاست دانوں پر ہی پڑتی ہے جو جمہوریت کے نام پر ووٹ لے کر ایوان اقتدار میں جاتے ہیں اور پھر اسی جمہور کہ معاشی قاتل بن کر سامنے آتے ہیں۔ ان وعدے اور ارادے دونوں ہی عوام کے لیے ہمیشہ ایک دھوکہ بن کر ہی سامنے آئے۔شاید غالب کا یہ شعر انہی لوگوں پر کسی حد تک صادق آتا ہے کہ!
” کعبے کس منہ سے جائو گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی!!!
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here