پاکستان قرضوں کیساتھ ترقی نہیں کر سکتا!!!

0
33

وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان قرضوں کے ساتھ ترقی نہیں کر سکتا جب تک دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوتا اس وقت تک ملک کی ترقی نہیں ہو سکتی۔ہڑتالوں اور دھرنوں سے ملک کو نقصان پہنچا ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی یہاں تک کہ سلامتی ارو خود مختاری اس کی اقتصادی خود مختاری سے مشروط ہوتی ہے۔ پاکستان حکمرانوں کی عاقب نااندیشی اور اشرافیہ کی لوٹ مار کی وجہ سے ایک کے بعد ایک معاشی بحران سے دوچار رہا ہے۔ اب تو یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ ملک کی سلامتی رکھنی ہے یا کنگالی بڑھانی ہے کیونکہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ہر حکومت اقتدار میں آنے سے پہلے دعوے اور وعدے تو معاشی خود انحصاری اور غیر ملکی قرضوں سے نجات کے کرتی ہے یہاں تک کہ اقتدار میں رہتے ہوئے ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے حکومتی کوششوں کو گنواتے نہیں تھکتی مگر جونہی حکومت بدلتی ہے تو پاکستانیوں پر انکشاف ہوتا ہے کہ خود انحصاری کے دعویداروں نے ملک کو پہلے سے بھی کئی گنا مقروض کر دیا۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان کے مطابق وفاقی حکومت نے صرف نومبر 2024 میں ایک ہزار 255ارب لیا جس کے بعد ملک پر مجموعی قرضوں کا حجم 70ہزار ارب روپے ہو گیا تھا جس میں مقامی قرض 585ارب اور بیرونی قرضے 21ہزار 780ارب روپے تھے۔ موجودہ حکومت ہی کیوں تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں 43ہزار 500ارب قرض لیا گیا جبکہ نگران حکومت اور موجودہ حکومت اب تک27ہزار کا ملک کو مزید مقروض کر چکی ہیں۔افسوسناک امر تو یہ ہے کہ قرضوں کے ہوتے ہوئے ملک ترقی نہ کرپانے کی نوید سنانے والے وزیر اعظم کی اپنی حکومت اپنی ایک سال کی قلیل مدت میں 4ارب 56کروڑ ڈالر کا قرض لے چکی ہے اور ہر قرض کی منظوری کو خوشخبری قرار دیتی رہی ہے۔وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں قوم کی ترقی کا راز اور معاشی خود انحصاری کا راز کارخانوں کی چمنیوں سے دھواں نکلنا بتایا ہے جو اسی صورت ممکن ہے کہ ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری آئے اور نجی اور غیر ملکی سرمایہ کاری سے ملک بھر میں نئی صنعتیں لگیں جبکہ زمینی حقائق کی خبر خود حکومتی اعداد و شمار دے رہے ہیں کہ گزشتہ سال کی نسبت رواں مالی سال میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی ہوئی ہے یہاں تک پہلے سے موجود کارخانے بھی بند ہو رہے ہیں جس کا ثبوت ٹیکسٹائل سیکٹر کی 70فیصد ملوں کا بند ہونا اورٹیکسٹائل کے ایک سیکٹر سے 8لاکھ مزدوروں کا بے روزگار ہونا ہے۔ عالمی قرضوں کی منسوخی کے لئے کام کرنے والی تنظیم سی اے ڈی ٹی ایم کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 35برسوں میں پاکستان کی حکومتیں 129.5ارب ڈالر قرض لے چکی ہے پاکستان کی معاشی خود انحصاری اور پاکستان کو قرضوں سے نجات دلانے کی دعویدار حکومتوں کے عملی اقدامات کا اندازہ سی اے ڈی ٹی ایم کے اعداد و شمار سے اچھی طرح ہو جاتا ہے جو کچھ یوں ہیں۔ضیا الحق کے دور اقتدار میں آخری تین سال میں 6.35ارب ڈالر قرض لیا گیا جبکہ بے نظیر اپنے دو برسوں میں ملک کو 5.11ارب ڈالر کا مقروض کیا۔ نواز شریف نے اپنے پہلے دور میں 7.05ارب ڈالر قرض لیا۔بے نظیر نے اپنے دوسرے دور میں ملک کو 8.01ارب ڈالر کا قرض مزید چڑھایا تو ملک مشرف کی آمریت میں ملک 23ارب ڈالر کا مقروض ہوا پیپلز پارٹی نے اپنی تیسری باری کے دوران 14ارب ڈالر ادھار لیا اور نواز شریف نے اپنے تیسرے دور میں تمام 25ارب ڈالر قرض لے کر تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے۔ان اعداد و شمار کے بعد یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پاکستانی حکمران قرضوں کی لت کے عادی ہو چکے ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب کوئی بھی ملک یا مالیاتی ادارہ قرض دینے کے لئے تیار نہیں اگر کوئی قرض دے رہا ہے تو اپنی شرائط پر دے رہا ہے جس کی قیمت پاکستانیوں کو پٹرول بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے اور غیر منصفانہ ٹیکسوں کے بوجھ کی صورت میں ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ لوگ غریب اور افلاس کے مارے خود کشیاں کر رہے ہیں جو زندہ ہیں وہ جسمانی اعضا فروخت کرنے پر مجبر ہیں جبکہ حکومت عوام کو آج بھی سہانے خواب دکھلا رہی ہے اور وزیر اعظم بھارت کو پیچھے چھوڑنے کے دعوے کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم محمد شہباز شریف کے عوامی جلسہ خطاب سے ایک بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ وہ ناصرف بیماری سے آگاہ ہیں بلکہ بیماری کے علاج کا بھی بخوبی ادراک رکھتے ہیں ۔ انہوں نے جلسہ میں یہ تسلیم کیا ہے کہ دہشت گردی اور دھرنوں اور ہڑتالوں سے ملک ترقی نہیں کر سکتا۔جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے تو یہ عالمی مسئلہ ہے اور پاکستان کی بہادر مسلح افواج اس محاذ پر بے مثال کامیابیاں حاصل کر رہی ہیں اور عالمی برادری پاکستانی فوج کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابیوں کو تسلیم بھی کر رہی ہے۔ باقی رہی دھرنوں اور ہڑتالوں کا معاملہ تو یہ حقیقت ہے کہ دھرنے اور آئے روز کی ہڑتالیں ملکی معیشت کے لئے زہر قاتل سے کم نہیں یہی وجہ ہے کہ ملک کے تمام اقتصادی اور سماجی ماہرین حکومت کو سیاسی استحکام کے لئے پہل کرنے اور اپوزیشن کو ملکی ترقی میں شامل کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں جب حکمت ہے کہ سماجی اور عوامی دبائو پر اگر مذاکرات شروع بھی کرتی ہے تو اس کو حیلے بہانوں سے ثبوتاژ کر دیا جاتا ہے۔وزیر اعظم اگر واقعی ہی ملکی ترقی کے لئے سیاسی استحکام اور امن کو لازمی سمجھتے ہیں تو ان کو دہشت گردی اور مخالفین کو کچلنے کی سیاست سے گریز اور مخالفین کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔بہتر ہو گا وزیر اعظم اپوزیشن بالخصوص تحریک انصاف کے تمام جائز تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کروانے کے ساتھ اپوزیشن رہنمائوں پر مزیدنا جائز مقدمات بنانے سے گریز کریں تاکہ اپوزیشن کو عدالتوں سے انصاف مل سکے اور اپوزیشن اور حکومت مل کر ملک کو معاشی ترقی اور خود انصحاری کی منزل پر گامزن کر سکیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here