جشن یا ماتم

0
324
ماجد جرال
ماجد جرال

آپ تصور کریں کہ موجودہ دور حکومت پاکستان تحریک انصاف کا نہیںبلکہ پاکستان پیپلز پارٹی، نون لیگ یا کوئی اور سیاسی جماعت اس وقت برسر اقتدار ہے۔ ان کی حکومت کو تین سال مکمل ہونے کو ہیں، ان تین سالوں میں ایک لیٹر دودھ جو آپ اسی روپے میں خریدے تھے وہ 115 روپے میں مل رہا ہے، ایک کلو گھی جو 170 روپے کا ملتا تھا اب 330 روپے مل رہا ہے، چینی جو آپ 55 روپے میں خریدا کرتے تھے 110 روپے کلو مل رہی ہے۔ اگر آپ صحافی ہیں تو آپ کو 90 ہزار روپے تنخواہ ملا کرتی تھی
وہ اب 50 ہزار یا 45 ہزار رہ گئی ہے۔ ڈالر، افراط زر، گردشی قرضے۔ معیشت وغیر وغیرہ سے آپ بالکل لاتعلق ہیں۔ موجودہ فرضی حکومتی جماعت جب بھی الزام لگائے تو کہے کہ پاکستان تحریک انصاف اپنے دور میں ضرورت سے زیادہ بجلی کے پیداواری معاہدے کرگئی تھی مگر جب گرمیاں شروع ہوں تو آپ کو 12 گھنٹے یا اس سے بھی زائد لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑے۔آپ میڈیکل اسٹور پر جائیں تو جو دوائی پاکستان تحریک انصاف کے دور میں 100 روپے کی تھی وہ 350 روپے یا اس سے بھی مہنگی ہوچکی ہے۔بجلی اور گیس کا بل آئے تو رہ رہ کر آپ کو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت یاد آئے۔
معاشرے کا کوئی فرد بھی یہ کہنے میں آڑ محسوس نہ کررہا ہو کہ موجود حکومت پاکستان تحریک انصاف کو چور، ڈاکو اور جانے کن کن ناموں سے پکارتی تھی مگر اتنی بے بسی اور لاچاری تو ان کے زمانے میں بھی نہیں تھی جتنی اس ایماندار حکومتی ٹولے کے زمانے میں دیکھنا پڑ رہی ہے۔غرضیکہ ہر شعبہ زوال پذیر ہورہا ہو اور اتنے میں آپ کو پتہ چلے کہ موجودہ فرضی حکومتی جماعت نے 3 سالہ دور حکومت کا جشن منانے کا اعلان کیا ہے یا منانے رہی ہے تو آپ کی کیا کیفیت ہوگئی۔کیا یہ جشن قوم کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف نہیں ہے؟یہ میں نہیں بلکہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما نہ صرف پریس کانفرنسوں میں واویلہ کررہے ہوتے۔بلکہ قوی امکان ہے کہ ایک بار پھر اسلام آباد کی جانب سونامی مارچ کیا جاتا، پھر کوئی مذہبی جماعت کا رہنما مسیحا بننے کا لبادہ اوڑھے ان کے پیچھے پیچھے یا آگے آگے چلتے ہوئے انقلاب کے نعرے لگوا رہا ہوتا۔ پھر کوئی رہنما کنٹینر پر چڑھ کر گنیز بک آف ریکارڈ میں اپنا نام درج کروانے کیلئے سو سے زائد دن دھرنا دے رہا ہوتا۔ ہر روز شام کو تمام میڈیا چینلز ان کی تقریر کو دکھانے کیلئے بے تاب ہو رہے ہوتے۔لاکھوں لوگ ان کی تقریروں پر جذباتی ہو کر پارلیمنٹ اور دیگر اداروں کی جانب چڑھ دوڑتے۔واہ کیا دلنشین منظر ہوتا؟
چلیں اس فرضی حکمران جماعت نے جشن منا تو لیا مگر یہ بتانا پسند کریں گے کہ اب اس کے یہ جشن کامیابیوں کا تھا یا بربادیوں کا۔ کیا خوب مشیر پائے ہیں انہوں نے جو زوال پذیری پر بھی خوش ہوکر شادیانے بجوا رہے ہیں۔ مگر ایک چیز کا مجھے یقین ہے کہ جب تین سالہ کارکردگی پر جشن منانے کی بات ہوئی ہوگی تو کئی وزرا آج بھی سوچ رہے ہوں گے کہ جشن ہم نے منایا کیوں؟

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here