کرونا لاک ڈائون کے دوران معاشی بحران سے نکلنے کے لیے حکومتی اقدامات نے مستقبل میں فنانشل لاک ڈائون کا خدشہ پیدا کر دیا ہے ،حکومت جس تیزی سے کیساتھ نوٹ چھاپتے ہوئے لوگوں پر نچھاور کر رہی ہے ، یہ مستقبل میں بڑے خطرے کا پیش خیمہ ہے ، شہریوں کی اکثریت گھر بیٹھے حکومتی امداد ملنے پر کاہل اور سست ہوگئی ہے ، ملازمین مفت کی تنخواہیں لینے کے عادی بن چکے ہیں ، کمپنیوں نے ملازمین کو گھر بیٹھے حکومتی امداد ملنے پر سر پکڑ لیے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایسے اقدامات کو اب ختم کردے کیونکہ ملازمین کی بڑی تعداد دفاتر نہیں آ رہی ہے ۔
بات صرف یہاں تک محدود نہیں ہے بلکہ مہنگائی بھی آسمانوں سے بات کررہی ہے ، گزشتہ برس گیس کی قیمت 1.99 ڈالر تھی جواب 3ڈالر تک پہنچ چکی ہے ۔ لوگوں کو گھروں میں بیٹھے حکومتی مالی امداد اور فوڈ سٹیمپ جیسے پروگرامز سے مسلسل استفادے کو موقع فراہم کیا جا رہا ہے ۔ ملک بھر میں مکانوں کے کرائے 100فیصد تک بڑھ گئے ہیں ، آئل کی قیمتوں میں 200، کاغذ کی قیمتوں میں 40فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا ہے ، نئی گاڑی کی قیمت میں 40ہزار ڈالر کا تاریخی اضافہ ہو چکا ہے یومیہ کار رینٹ 300 ڈالر تک بڑھ چکا ہے ۔مقامی فائونڈیشن کی رپورٹ کے مطابق ایک عام خاندان کی ہیلتھ کوریج کا خرچہ سالانہ 21ہزار 342 ڈالر تک پہنچ چکا ہے ، شپنگ کے اخراجات گزشتہ سال کی نسبت 50 فیصد بڑھ چکے ہیں ۔
موجودہ حکومت جس انداز سے کھربوں ڈالر کے نوٹس چھاپ کر لوگوں کو آسانیاں فراہم کررہی ہے یہ مستقبل میں بڑا معاشی بحران ثابت ہو سکتا ہے ، آج سب لوگ حکومت کی امداد سے خوش ہیں اور اپنے معمولات زندگی چلا رہے ہیں لیکن انہیں مستقبل کے دھماکہ خیز خطرے کے بارے میں علم نہیں ہے جس کی وجہ سے متوسط طبقے کے خاندان غربت کا شکار ہو جائیں گے جبکہ امیر خاندان متوسط طبقے کی سطح پر آجائیں گے اور یہ سب بہت خوفناک ثابت ہو سکتا ہے ۔
معاشی ماہرین نے بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ جس طرح حکومت کھربوں ڈالر کے نوٹس چھاپ کر لوگوں کو چیک کی صورت میں یا فوڈ سٹیمپ کی صورت میں دے رہی ہے اس سے مستقبل میں بڑا معاشی بحران پیدا ہو سکتا ہے ۔لوگوں کو اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ ان کی دولت ، ریٹائرمنٹ پلان ، مستقبل ہر چیز دائو پر لگ گئی ہے جس طرح فیڈ نے گزشتہ مارچ میں صرف دو روز میں 12 اور 13 مارچ کو کھربوں ڈالر ز کے نوٹ چھاپے ہیں اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے ۔اس طرح سے کثیر تعداد میں نوٹ چھاپنے سے ڈالر کی قدر میں تیزی سے کمی آ رہی ہے جوکہ سٹاک مارکیٹ پر بھی انتہائی برے اثرات مرتب کرے گی ، ماہرین مستقبل میں درپیش فنانشل کرائسز کو خاموش اور نہ نظر آنے والا قرار دے رہے ہیں جس کا عام شہریوں کو ادراک کرنا ہوگا ۔
فنانشل کرائسز آنے سے قبل ہی ملک میں ہر اشیا ضرورت ہاتھوں سے نکلتی جا رہی ہے ، الیکٹرانک اشیا ، واشنگ مشینز ، ریفریجریٹرز اور دیگر مصنوعات کی قیمتوں میںبے پناہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اورفنانشل لاک ڈائون کی صورت میں یہ اشیا تو ہماری قوت خرید سے ہی باہر ہو جائیں گی ، اس لیے بائیڈن حکومت کو چاہئے کہ حال کی بجائے مستقبل پر بھی توجہ دے کہ ہمیں کس طرح ممکنہ فنانشل لاک ڈائون کا مقابلہ کرنا ہے، کسی بھی عمل کے ردعمل میں وقت درکار ہوتا ہے اگر ہمیں مستقبل میں فنانشل لاک ڈائون کا سامنا کرنا پڑا تو حکومت کے پاس اس کی تیاری کے حوالے سے حکمت عملی ہونی چاہئے ورنہ بہت دیر ہوجائے گی ،اگر نائن الیون کو ورلڈ ٹریڈ سینٹرز کے ساتھ دو طیاروں کے ٹکرانے کی بات کی جائے تو لوگوں نے سیڑھیوں تک پہنچنے میں چھ منٹ کا وقت لیا جبکہ اکثر کو ایگزیٹ تک پہنچنے میں 45منٹ تک لگ گئے اور اس دوران دھوئیں ، آگ کی شعلوں اور جہاز کے جلتے تیل کی بو کے ساتھ ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں موجود 1ہزار کے قریب لوگوں نے اپنی اشیا سمیٹنے ، کمپیوٹرز کو شٹ ڈائون کرنے کیلئے وقت لیا ۔ حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ ممکنہ خطرے کے پیش نظر اپنی معاشی ٹیم کو ذمہ داریاں سونپے کہ ہمیں مستقبل میں معیشت کو درپیش خطرات سے کس طرح نبرد آزما ہونا ہے ۔