پچھلے کئی دنوں سے افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کی خبریں دیکھ پڑھ اورسن رہے ہیں۔ان سارے بدلتے حالات اور عجلت میں پچھلے20سال سے پڑائو ڈالنے والی امریکی فوج اپنا مشن پورا کرکے واپس آنے والی تھی جن کی تعداد14ہزار بتائی جاتی ہے۔افغانستان میں جگہ جگہ فوجی چھائونی بنی ہوئی تھی اور اب انکی واپسی کے بعد ایک ٹریلین سے زیادہ کے ہتھیار، ہیلی کاپٹر، وین، ٹرک پک اپ طالبان کے حوالے کرکے نہایت بھونڈے طریقہ سے واپس آئے ہیں کہ13جون امریکی فوجی دہشت گردی کا نشانہ بن گئے اور دو سو سے زیادہ زخمی حالت میں ہسپتال میں پڑے ہیں۔ان سب کے گھر والوں پر کیا گزری ہے کیا ہم اس کا اندازہ کرسکتے ہیں جو اس ملک میں بس کر خوشحال اور سکون کی زندگی گزار رہے ہیں ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ چند ایک کو چھوڑ کر سب ہی یہاں رہ کر پاکستان کی فکر میں مبتلا ہیں۔یہاں آپ کو ایم کیو ایم،ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے ڈائی ہارٹ جیالے بھی ملیں گے اور وہاں سے ڈاکہ مار کر یہاں بسنے والے بھی ہر طرح کی تنظیمیں ملیں گی جو یوم آزادی کشمیر کی آزادی،عورتوں کے حقوق، بچوں پر جنسی زیادتیوں پر آوازیں اٹھاتے ہیں اور کچھ شہرت اور بہت سے مال بناتے ہیں ،یہ سب تنظیمیں روح سے خالی ہیں ان میں ان کا قصور نہیں، پچھلے50سے70سال میں ہر چیز بدل چکی ہے۔اچھائی کی جگہ برائی اور حلال رزق کی جگہ حرام کی کمائی سے کھایا اور کھلانے والا رزق، انسان کی سوچ اور فکر کو بدل دیتا ہے۔
آج پاکستان میں کیا ہورہا ہے سب کے سامنے ہے۔PTiکے مخالفوں کا نشہ نہیں اترا ہے، اقتدار میں تھے تو دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور باہر کے بنکوں میں اکائونٹ کھولا۔اپنے بچوں کو بھی امریکہ اور دبئی میں پلانٹ کیااور ریٹائرڈ ہو کر یا پکڑے جانے کے ڈر سے ملک چھوڑ کر بھاگ گئے،فوجی جنرل سے لے کر عام شہری تک یہ سلسلہ جاری ہے۔
ہم مراکش میں تھے وہاں پانچ خوبصورت شہروں میں پڑائو ڈالا ،خوبصورت ٹراموں میں سفر کیا ، تہذیب وتمدن کا جائزہ لیا۔ہر کوئی محنت مزدوری سے اپنا اور بچوں کا پیٹ پال رہا ہے۔دنیا کا سب سے پرانا دباغ خانہ (TANNERY) شہر فیض میں ہے۔جہاں پرانے طریقے سے جانور کی کھالوں کی صفائی اور حفاظتی طور سے انہیں استعمال کے قابل بنایا جاتا ہے۔مراکش کے شمال میں بڑی بندرگاہ تینجیر(TANGIER)کو خوبصورت شکل دی گئی ہے۔خیال رہے یہیں سے طارق بن زیاد کشتیوں کے ذریعے سپین میں داخل ہوا تھا اورسپین میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی تھی اور تسخیر میں ہی دنیا کا سب سے مشہور سیاح ابن بطوطہ دفن ہے جو20سال کی عمر میں قافلے کے ساتھ نکلا تھا اور دنیا گھوم کر واپس مراکش آگیا ایک دلچسپ سفرنامہ لکھا جو پڑھنے کے قابل ہے۔دلچسپ،حیرت انگیز اور شہوت کی چاشنی لئے ہوئے ہے یہ ہم اس لئے لکھ رہے ہیں کہ ہم نے پاکستانی کتابیں پڑھی ہیں، اچھی بات یہ ہے کہ یہ گوگل پر بھی ہے اور مفت میں پڑھ سکتے ہیں ۔پاکستان والے تو ہماری بات نہیں پڑھ رہے لیکن یہاں گھروں میں بند ے پڑھ سکتے ہیں بجائے اس کے کہ ”ٹک ٹوک”سے چپکے بیٹھے رہیں۔
بات ہو رہی تھی تہذیب و تمدن، تاریخ اور اس سے جڑے ملک مراکش کی جو عرصہ تک فرانس کے قبضے میں رہا ہے اور وہاں کے باشندوں نے عربی زبان کے علاوہ فرانسیسی بھی سیکھ لی۔ آزادی کے بعد اب سکولوں میں عربی اور فرانسیسی پڑھائی جاتی ہے اور آج بھی فرانس سے فائدہ اُٹھایا جارہا ہے۔ٹرانسپورٹیشن کی تنصیبات ان ہی کی مرہون منت ہے۔مراکشیوں نے فرانس سے بہت کچھ سیکھا ہے۔رینگنے والے جانوروں کیلئے خوبصورت قدرتی انداز کی پناہ گاہ بنائی ہے وہاں مگر مچھ سے لے کر ختم ہوتی نسل کے رینگنے والے جانور دیکھے جاسکتے ہیں۔بہت پہلے1980ء کی بات ہے کہ دو بڑے مگرمچھ رینگتے ہوئے کسی طرح فرانس پہنچے تو فرانسیسیوں نے انہیں مہمان بنالیا۔جب مراکو والوں کو علم ہوا تو انہیں کہا کہ واپس کرو۔معاملہ طے ہوگیا اور اب یہ دونوں مگرمچھ جن کا وزن تقریباً270پونڈ ہے اور لمبائی5فٹ سے 7فٹ تک ہے۔فرانس واپس کرنے جارہا ہے اب وہ اپنی آبُ ہوا اور فضا اور قدرتی ماحول میں بقیہ عمر گزاریں گے۔حالانکہ فرانس نے مگرمچھوں کو چوری نہیں کیا تھا ہمیں یاد آیا زیادہ پرانی بات نہیں ہمارے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی بیگم نے ترکی سی آئی مسزاردگوان کے دیئے گئے قیمتی ہار کو تحفہ سمجھ کر اپنے گلے کی زینت بنا لیا تھا یہ ہار مسزاردگوان نے زلزلہ زدگان کی امداد کے لئے دیا تھا۔گیلانی صاحب کو ترکش نہیں آتی اور مسزاردگوان کو اردو نہیں اور درمیان میں مترجم نے ڈنڈی ماری ہوگی شاید وہ ہار ابھی ان کے پاس ہی ہے ۔مقابلہ کریں فرانسیسیوں سے کہ وہ مگرمچھوں کی نمائش سے مال بنا سکتے تھے لیکن تہذیب یافتہ قومیں ایسا نہیں کرتیں جو ہمارے وزیراعظم نے کیا تھا ہم بھول گئے کہ زرداری صاحب کی صحبت کا کچھ تو اثر ہوگا جن کا شروع کا پیشہ آباگری سینما کے ٹکٹ بلیک میل میں بیچنا تھا۔کوئی اور ملک ہوتا تو زرداری سمیت سب کے سب یا تو ملک بدر ہوتے یا جیلوں میں پٹی دار سلیپنگ سوٹ میں زمین کھود رہے ہوتے ہیں۔لندن والے بھی خواب ہیں جنہوں نے اپنے ملک کو چوروں اور ڈاکوئوں کے علاوہ سمگلروں کی پناہ گاہ(SANCTUARY)بنا رکھا ہے۔یورپ میں اور بھی ممالک ہیں سوئیزرلینڈ کا زرمبادلہ بھی چور ڈاکوئوں کی لوٹی ہوئی دولت ہے۔لندن والوں کوچاہئے کہ وہ نوازشریف کو پاکستانی مگرمچھوں کی طرح واپس کر دیں۔ہوسکتا ہے وہ ایسا چاہتے ہوں اور ہمارے جنرلز نے اشارہ دیا ہو ہم تو خود آرہے ہیں ریٹائر ہونے کے بعد اور ہم ان کو اپنے بزنس میں شریک نہیں کرسکتے لہٰذا تم ہی رکھو فی الحال زرداری ہم سب پر بھاری ہے، ہم نے اس کالم میں تھوڑا مزاح پیدا کیا ہے کیونکہ سیاست وہ چاہے پاکستان کی ہو یا امریکہ کی، فضول ہے، عوام کو اس سے کیا لینا دینا۔