کہتے ہیں لوگ شاعرِ انسانیت مجھے
دو چار روز تم بھی رہو جعفری کے ساتھ
میرے لیے بہت خواشی اور فخر کی بات ہے کہ ڈاکٹر مقصود جعفری صاحب جیسی علمی و ادبی شخصیت کی شاعری کی کتاب جبرِ مسلسل میرے زیبِ نظر ہوئی جسے پڑھ کر مجھے اِس بات کا ادراک ہوا کہ انہیں شاعرِ انسانیت کیوں کہا جاتا ہے۔ آپ کہتے ہیں!
ہم غریبوں کی حمایت میں کھڑے ہیں اب بھی
نہ طرفِ دار حکومت ہیں، نہ زر دار کے ساتھ
آپ کی لکھی گئی غزلیات کے مطابق انسان کی زندگی میں کئی طرح کی بندشیں ہوتی ہیں جو اس کے فیصلوں، خوابوں اور کوششوں میں رکاوٹ ڈالتی ہیں لیکن اِن سب کے مقابلے کے لیے ہمت اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کہتے ہیں!
کس میں ہمت ہے مٹائے میرا نقشِ زندگی
جو مٹائے گا مجھے، خود بے نشاں ہو جائے گا
مقصود جعفری کے نزدیک جبر کی مختلف اقسام ہیں جن کا تجزیہ کچھ اس طرح سے کیا ہے۔ معاشرتی جبر، نفسیاتی جبر اور ثقافتی جبر سرِ فہرست ہیں جو کہ انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ آپ نے زندگی کی پیچیدگیوں، نفسیات اور سماجی مسائل سے لڑنے کا حوصلہ کچھ اِس طرح دیا ہے۔ کہتے ہیں!
دل کے قصے بیاں نہیں ہوتے
زیرِ پا آسماں نہیں ہوتے
دشت میں سوچ کر قدم رکھنا
دشت میں سائباں نہیں ہوتے
آپ نے زندگی کے تلخ تجربات اور جدو جہد کو اپنے اشعار میں اِتنی دلکشی اور خوبصورتی سے قلم بند کیا ہے کہ یہ کہنا بجا ہو گا گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔
٭٭٭