طالبان کی فتح کی بنیادی وجوہات

0
122
شمیم سیّد
شمیم سیّد

افغانستان میں دنیا کی عظیم ترین عسکری طاقتوں کی پسپائی سے یہ اہم نکتہ نمایاں ہوا کہ آج بھی کسی حریف کی شکست یا فتح میں جوش وجذبہ اور نیت اپنا کردار ادا کرتی ہے۔عددی برتری اور خوفناک ہتھیاروں کی اہمیت اپنی جگہ مگر امریکا و نیٹو افواج کی ہار نے سبھی پر یہ سچائی افشا کر دی کہ یہ دونوں عوامل جیت کی ضمانت نہیں سمجھے جا سکتے۔ اللہ تعالی نے قران پاک میں اس نکتے کو کئی آیات میں نمایاں کیا ہے کہ مسلم لشکر اگر تعداد میں کم ہے، اسلحہ تھوڑا رکھتا ہے تب بھی وہ اپنے رب پہ ایمان کی قوت اور نیک نیتی کی طاقت سے پر غالب آ سکتا ہے اور طالبان بار بار کہتے ہیں کہ ان کی جنگ ذاتی مفادات کے لیے نہیں بلکہ زمین پہ رب تعالی کا نظام قائم کرنے کے لیے ہے۔ افغان حکمران طبقے کا طرز زندگی بھی طالبان لیڈروں سے بالکل مختلف ہے۔اکثر طالبان رہنما مختلف کام کرتے ہیں تاکہ اپنا اور بال بچوں کا پیٹ پال سکیں مثلاً کاشت کاری، دکان داری، تجارت وغیرہ۔وہ بہت سادہ ہیں اور عوام کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔افغان حکمران طبقہ اول تو اپنے محلات سے نہیں نکلتا،اگر نکلے تو گارڈوں کے حصار میں ہوتا ہے۔جبکہ طالبان لیڈر خود میدان جنگ جا کر حریف سے نبردآزما ہوتے ہیں۔ 2017ء میں امیر طالبان، ملا ہیبت اللہ کے تیئس سالہ فرزند ،حافظ عبدالرحمن دشمن کا مقابلہ کرتے شہید ہو گئے تھے۔طرززندگی کے تقاوت نے بھی طالبان کو خصوصاً پشتون عوام میں مقبول کر دیا۔
یکم مئی سے افغان سیکورٹی فورسسز پہ حملے کا آغاز کرتے ہوئے طالبان نے دو حکمت عملیاں اپنا ئیں۔اس عمل سے ظاہر ہے کہ طویل چھاپہ مار جنگ نے طالبان لیڈروں کو تجربہ کار ا ور ماہر بنا دیا ہے۔اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے وہ محض طاقت پر انحصار نہیں کرتے بلکہ تدبیر ودانش کو بھی اپناتے ہیں۔انھیں علم تھا کہ سیکورٹی فورسسز کے بیشتر فوجی کم عمر،ناتجربے کار اور جنگ سے بیزار ہیں۔انھوں نے صرف پیسے کے لالچ میں سیکورٹی فورس میں شمولیت اختیار کی۔ لہذا جب دوران جنگ موت کو سر پہ منڈلاتے دیکھا تو راہ فرار اپنانے میں دیر نہیں لگائیں گے۔اور ایسا ہی ہوا۔اضلاع پہ دھاوا بولنے سے قبل مگر طالبان نے افغان سیکورٹی فورسسز کے مقامی کمانڈروں کو براہ راست پیغام بھجوایا کہ اگر وہ اپنی سپاہ سمیت ہتھیار ڈال دیں تو نہ صرف ان کی جانیں محفوظ رہیں گی بلکہ انھیں لباس اور رقم بھی فراہم کی جائے گی تاکہ وہ اپنے گھروںکو لوٹ سکیں۔ دوسری حکمت عملی یہ اپنائی گئی کہ طالبان نے ہر ضلع میں مقامی معززین کی کمیٹی بنا دی۔ اس کمیٹی نے پھر سیکورٹی فورسسز کے کمانڈروں سے رابطہ کرکے ان پہ زور ڈالا کہ وہ ہتھیار ڈال دیں اور طالبان سے نہ لڑنے کا عہد کریں۔طالبان کی دونوں حکمت عملیوں کو بیشتر اضلاع میں کامیابی ملی اوروہاں انھوں نے معمولی لڑائی کے بعد اپنا تسلط جما لیا۔مگردیگر اضلاع میں وہ ناکام رہیںوہاں طالبان کو سیکورٹی فورسسز سے لڑنا پڑا۔لڑائیوں میں طرفین کا خاصا جانی نقصان ہوا۔ حقائق سے ظاہر ہے کہ طالبان افغان سیکورٹی فورسسز پر عددی و اسلحے کے لحاظ سے برتری نہیں رکھتے مگر نفسیاتی طور پہ ان کا پلّہ ضرور بھاری تھا۔اس کی اہم وجہ طالبان کا عوام میں مقبول، تجربے کار اور اپنے مشن سے مخلص ہونا ہے۔جبکہ افغان فوجی وسپاہی جس حکمران طبقے کی حفاظت کر رہے تھے ،وہ خود غرض،لالچی اور مطلبی تھے۔انہیں ملک وقوم کے مستقبل نہیں بلکہ اپنے مفادات کی زیادہ فکرتھی۔
پچھلے بیس برس سے امریکا ونیٹو نے طالبان کو شکست دینے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا!حتی کہ افغانستان میں انھوں نے ایک خفیہ فوج بنا ڈالی جو سی آئی اے کے ایجنٹوں اور کرائے کے فوجیوں پر مشتمل تھی۔مغربی ممالک نے اپنے تمام مالی و عسکری وسائل جنگ میں جھونک دئیے مگر وہ طالبان کو ہرا نہ سکیں۔طالبان کی گوریلا جنگ نے الٹا امریکہ و نیٹو کو پسپا ہونے پہ مجبور کر دیا۔اسی لیے دنیائے مغرب کے نامی گرامی دانشورں نے افغانستان سے امریکہ و نیٹو کی افواج کے انخلا کو ”تاریخی شکست”سے تعبیر کیا۔
ایک بنیادی اور اہم سوال یہ ہے کہ امریکہ ونیٹو کی طویل ترین افغانستان جنگ سے نتیجہ کیا برآمد ہوا؟یہ افغان عوام کی بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ آج بھی ان کی اکثریت غربت،بیروگاری ،جہالت اور بیماری کی بیڑیوں میں جکڑی ہے اور عام آدمی کی حالت بدل نہیں سکی۔بیس سالہ دور میں صرف حکمران طبقے سے وابستہ مردوزن ہی نے بذریعہ کرپشن اپنی تجوریاں بھر لیں اور امیر کبیر بن گئے۔
پچھلے سال امریکا اور طالبان کے مابین معاہدہ ہوا تو اس کی ایک اہم شق یہ تھی کہ افغان حکومت تمام قیدی طالبان رہا کر دے گی۔اس نے پانچ ہزار قیدی تو رہا کر دئیے لیکن پھر مزید رہا کرنے سے مْکر گئی۔یوں افغان حکومت نے بدعہدی کر کے معاہدہ توڑ دیا۔اس کے بعد ہی طالبان نے افغان حکومت کے خلاف کارروائیاں تیز کر دیںاور اضلاع پہ قابض ہونے لگے۔سیکڑوں اضلاع بہ سرعت فتح کرنے سے صورت حال یکسر بدل گئی۔پہلے افغان حکومت اور طالبان متوازی قوتوں کی حیثیت سے بات چیت کر رہے تھے۔جب طالبان نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا تو قدرتاً ان کا پلّہ بھاری ہو گیا۔وہ پھر افغانستان پر ملکیت کا دعوی کرنے لگے تو جعلی افغان حکمران طبقے کو اپنا اقتدار خطرے میں نظر آیا۔ روس،چین اور وسطی ایشیا کے بیشتر ممالک طالبان کے حامی بن چکے ہیں۔چونکہ افغانستان قیمتی معدنیات کے ذخائر رکھتا ہے لہذا دونوں عالمی طاقتیں اس میں دلچسی لے رہی ہیں۔مذید براں یہ ملک چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا بھی حصّہ بن سکتا ہے۔تاہم روس اور چین نہیں چاہتے کہ طالبان بزور قوت حکومت بنانے کی کوشش کریں۔یوں مملکت خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گی۔اسی لیے وہ مسئلے کا سیاسی حل چاہتے ہیں۔
اسی سلسلے میں ممتازامریکی اخبار”واشنگٹن پوسٹ”کی ایک خصوصی رپورٹ ”غیر محفوظ قوم”اہم انکشافات سامنے لاتی ہے۔یہ دسمبر 2019ء میں طبع ہوئی تھی۔اس رپورٹ نے انکشاف کیا کہ افغان سیکورٹی فورسسز انتہائی نا اہل،جوش وجذبے سے عاری،کرپٹ اور مسائل میں گھری ہوئی ہیں۔حتی کہ ان کی تربیت بھی مناسب انداز میں نہیں ہوئی۔ افغان حکومت کے کاغذات کی رو سے افغان سیکورٹی فورسسز کی تعداد ”تین لاکھ باون ہزار” ہے۔مگر جب جانچ پڑتال ہوئی تو معلوم ہوا کہ افغان افواج اور پولیس میں صرف ”دو لاکھ چون ہزار”افراد اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔گویا حکمران طبقے نے دھوکہ دہی اور فراڈ سے کاغذات میں تقریباً ایک لاکھ نفری بڑھا دی جس کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔مقصد یہی تھا کہ اس نفری کی تنخواہ جرنیلوں،سیاست دانوں اور سرکاری افسروں کے مابین تقسیم ہو سکے۔امریکی اخبار نے یہ سچائی بھی افشا کی کہ افغان حکمران طبقہ جو رقم ہڑپ کر رہا تھا،وہ امریکی ٹیکس دہندگان ادا کرتے ہیں۔مزید انکشافات سامنے آئے مثلاً یہ کہ ان میں نظم وضبط کا فقدان ہے۔بیشتر فوجی اور سپاہی نشئی ہیں۔حتی کہ جب وہ گشت پہ نکلتے تو کھلے عام افیون،چرس، ہیروئن وغیرہ کا استعمال کرتے۔اہم انکشاف یہ سامنے آیا کہ اکثر اضلاع میں کمانڈروں نے ”نجی چیک پوسٹیں”قائم کر رکھی ہیں۔ ان پوسٹوں سے گزرنے والوں سے بھتا لیا جاتا جو افغان سیکورٹی فورسسز کے کمانڈروں کی جیبوں میں جا پہنچتا۔یہ امر بھی نمایاں ہوا کہ افغان فوجیوں میں دشمنی عام ہے۔وہ ایک دوسرے پہ گولی چلاتے ہوئے بھی نہیں ہچکچاتے۔نیز عوام کو بھی مختلف طریقوں سے تنگ کرتے ہیں۔غرض کرپشن اور لالچ و ہوس نے افغان سیکورٹی فورسسز کو اخلاقی طور پہ کھوکھلا کر دیا۔یہ فورسسز کیا طالبان سے مقابلہ کرسکتی تھیں جو اخلاقی طور پہ ان سے زیادہ مضبوط ہیں؟سچ یہ ہے کہ افغان حکمران طبقے کی بے دریغ کرپشن کے باعث ہی سیکورٹی فورسسز بھی کرپٹ ہو گئیں اور آناً فاناً شکست سے دوچار بھی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here