اسلام آباد:
عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف ) کے ٹیکنیکل مشن نے پاکستان کے زوال پذیر ٹیکس نظام کے جائزے کے لیے مذاکرات کا آغاز کردیا۔
گزشتہ روز شروع ہونے والے مذاکرات میں ٹیکس سسٹم کے جائزے پر گفت و شنید ہوگی جو رواں برس اضافی ٹیکسوں کی مد میں 734 ارب کی لیوی کے باوجود خاطرخواہ کارکردگی نہیں دکھاسکا۔ آئی ایم ایف مشن خاص طور سے ٹیکس دہندگان کو انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس سے استثنیٰ کو زیر غور لائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر ٹیکس سے استثنیٰ وزیراعظم کے ڈیٹ انکوائری کمیشن کے ریڈار پر بھی ہے۔
کمیشن نے پاکستان پیپلزپارٹی ( 2008-13 ) اور پاکستان مسلم لیگ ( ن ) ( 2013-18) کے گذشتہ ادوار میں دیے گئے استثنیٰ کی تفصیلات بھی طلب کرلی ہیں۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے حکام کے مطابق پہلے روز آئی ایم مشن نے ایف بی آر کے ساتھ اجلاس میں سیلزٹیکس اور کارپورٹی انکم ٹیکس کے معملات پر تفصیلی گفتگوکی۔ آئی ایم ایف مشن پاکستان میں 2 ہفتے تک قیام کرے گا اور اس دوران وفاقی اور صوبائی ٹیکس حکام سے ملاقاتیں کرے گا۔
ٹیکینکل اسسٹنس ٹیم کی ملاقاتیں 29 نومبر کو ختم ہوں گی اور اسی تاریخ کو آئی ایم ایف کا جائزہ مشن جولائی تا ستمبر کے عرصے کے دوران 6 ارب ڈالر کے قرضہ پروگرام کے تحت پاکستان کی کارکردگی کا جائزہ لے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کا ٹیکنیکل مشن سیلزٹیکس سے متعلق تمام پہلوؤں کا جائزہ لے گا۔ واضح رہے کہ مجموعی ٹیکس محصولات میں سیلز ٹیکس کا حصہ 40 فیصد ہے۔ مشن کی توجہ سیلز ٹیکس اخراجات، استثنیات، اور گنجائش کے مقابلے میں کم محصولات جمع ہونے پر مرکوز رہے گی۔
سروے آف پاکستان کے مطابق گذشتہ مالی سال میں ٹیکس استثنیٰ سے 972.4 ارب روپے کا نقصان ہوا تھا جو گذشتہ سے پیوستہ مالی سال کے 431 ارب روپے کے مقابلے میں 80 فیصد زیادہ ہے۔ اس نقصان میں انکم ٹیکس استثنیات کا حصہ 141.6 ارب روپے تھا۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کی ٹیم کارپوریٹ ٹیکس اور بڑی فرموں کو دیے جانے والے استثنیٰ کا بھی جائزہ لے گی۔ ٹیم انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکنڈ شیڈول کو بھی تفصیلاً زیربحث لائے گی جو ٹیکس استثنیٰ سے پُر ہے اور جس میں بڑے کاروباروں، ججوں، جرنیلوں اور بیوروکریٹس کو رعایتیں دی گئی ہیں۔ ٹیم کسٹم ڈیوٹی اسٹرکچر اور کم محصولاتی آمدنی کی وجوہ کا بھی جائزہ لے گی۔