روحانی ڈاک!!!

0
204
رعنا کوثر
رعنا کوثر

رعنا کوثر

سوال: اگر کسی روحانی استاد کی نگرانی میں مراقبہ کرنے سے دل کی آنکھ یا باطنی آنکھ کھل جاتی ہے تو ہم یہ کیوں نہیں پتہ کر لیتے کہ احرام مصر کب اور کیوں تعمیر ہوئے اور ان میں استعمال ہونیوالے اتنے وزنی پتھر کس طرح لائے گئے؟
جواب: سائنس کی دنیا کہکشانی اور شمسی نظاموں سے اچھی طرح روشناس ہے۔ کہکشانی اور شمسی نظاموں کی روشنی سے ہماری زمین کا کیا تعلق ہے اور ان نظاموں کی روشنی زمین کی نوعوں انسان، حیوانات، نباتات اور جمادات پر کیا اثر کرتی ہے۔ یہ مرحلہ سائنس کے سامنے آ چکا ہے۔ سائنس دانوں کو یہ سمجھنا پڑے گا کہ شمسی نظاموں کی روشنی انسان کے اندر، نباتات کے اندر، جمادات کے اندر کس طرح اور کیا عمل کرتی ہے اور کس طرح جانوروں، انسانوں، نباتات اور جمادات کی کیفیات میں رد و بدل کرتی رہتی ہے۔
سائنس کا عقیدہ یہ ہے کہ زمین پر ہر موجود شئے کی بنیاد یا قیام لہر اور صرف لہر پر ہے ایسی لہر جس کو روشنی کے علاوہ اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ٹیلی پیتھی میں ایسے علوم سے بحث کی جاتی ہے جو حواس کے پس پردہ شعور سے چھپ کر کام کرتے ہیں۔ یہ علم ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہمارے حواس کی گرفت محض مفروضہ ہے۔جواب: آپ کا یہ سوال کہ ٹیلی پیتھی کو جاسوسی میں کیوں استعمال نہیں کیا جاتا اور ٹیلی پیتھی کے ذریعے سربستہ راز کیوں معلوم نہیں کئے جاتے، اس کے بارے میں ایسے شواہد موجود ہیں کہ ہپناٹزم کے ذریعے یورپ میں بڑے بڑے آپریشنر کر دیئے جاتے ہیں اور مریض کو تکلیف کا احساس بالکل نہیں ہوتا وغیرہ وغیرہ۔ ہپناٹزم اور ٹیلی پیتھی ایک ہی قبیل کے دو علم ہیں۔ ان کا منبع اور مخزن ایک ہے یعنی خیالات کے اوپر گرفت کا مضبوط ہونا۔ایسے صاحب روحانیت جو ٹیلی پیتھی کے قانون سے واقف ہیں وہ آزاد ذہن ہوتے ہیں، انہیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ جاسوسوں کو پکڑتے پھریں اور پولیس کا کردار انجام دیں۔ البتہ یہ بات عام طور پر مشاہدے میں آئی ہے کہ کوئی بندہ کسی صاحب روحانیت کی خدمت میں حاضر ہوا اور اگر اس بندے کے دماغ میں جو کچھ تھا وہ انہوں نے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر بیان کر دیا۔
احرام مصر کب اور کیوں قائم ہوئے اور ان کو تیس(۳۰) لاکھ تراشے ہوئے پتھروں سے کس طرح بنایا گیا جب کہ ہر چٹان کا وزن ستر 70 ٹن ہے اور یہ زمین سے تیس سے چالیس فٹ کی بلندی پر نصب ہیں اور ان احرام کا فاصلہ کم سے کم پندرہ(۱۵) میل اور زیادہ سے زیادہ پانچ سو میل ہے یعنی جن پتھروں سے اہرام مصر کی تعمیر ہوئی وہ پانچ سو میل دور سے لائے گئے تھے۔میرے بھائی! کسی صاحب مراقبہ کے لئے یہ بات معلوم کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے لیکن ان کے سامنے اس سے بہت زیادہ ارفع و اعلیٰ اللہ تعالیٰ کے رموز ہوتے ہیں اور وہ ان رموز تجلیات میں محو استغراق رہتے ہیں۔ایک بزرگ رمپا خیالات کی لہروں کے علم سے وقوف رکھتے ہیں۔ انہوں نے ماہرین آثار قدیمہ کے اصرار پر یہ انکشاف کیا ہے کہ بیس (۲۰) ہزار سال پہلے کے وہ لوگ جنہوں نے اہرام مصر بنائے ہیں آج کے سائنسدانوں سے زیادہ ترقی یافتہ تھے، اور وہ ایسی ایجادات میں کامیاب ہو گئے جن کے ذریعے پتھروں میں سے کشش ثقل ختم کر دی جاتی تھی۔ کشش ثقل ختم ہو جانے کے بعد پچاس (۵۰) یا سو (۱۰۰) ٹن وزنی چٹان ایک آدمی اس طرح اٹھا سکتا ہے جیسے پروں سے بھرا ہوا ایک تکیہ۔ اس طرح سائنس کی اس دنیا میں ایک اور بزرگ جناب ایڈگر کیسی کے مطابق ان پتھروں کو ہوا میں تیرا(فلوٹ) کر موجودہ جگہ بھیجا گیا ہے۔
اہرام مصر کے سلسلے میں ان دانشور بزرگوں نے جو کچھ فرمایا ہے وہ لہروں کی منتقلی کے اس قانون کے مطابق ہے جس کو ٹیلی پیتھی کہا جاتا ہے۔
فلپائن میں آپریشن کی دنیا میں یہ حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے کہ ایک ڈاکٹر اور ان کی ساتھی انگلی کے اشارے سے بڑے سے بڑا آپریشن کر دیتے ہیں۔ اور بڑی سے بڑی رسولی انگلی کے اشارے سے جسم سے باہر آ جاتی ہے۔ یہ کوئی توہماتی بات نہیں۔ مووی کیمرے سے اس کی باقاعدہ فلم لی گئی ہے اور بڑے بڑے دانشوروں نے اسکرین پر اس فلم کو دیکھا ہے۔
ہمارے اسلاف میں ایک بزرگ شاہ ولی اللہ گزرے ہیں جن کے ہاتھ اس جرم میں توڑ دیئے گئے کہ انہوں نے قرآن پاک کا ترجمہ کیا تھا۔ انہی بزرگ نے تحریری طور پر یہ بتایا کہ انسان کے جسم سے اوپر ایک اور انسان ہے جو روشنیوں کی لہروں سے مرکب ہے جس کا اصطلاحی نام انہوں نے نسمہ رکھا ہے اور جسے ڈاکٹر رمپا نے اورا کا نام دیا ہے۔
شاہ ولی اللہ نے یہ بات واضح دلیل کے ساتھ بتائی ہے کہ اصل انسان نسمہ یعنی اورا ہے جتنی بیماریاں یا الجھنیں اور پریشانیاں انسان کو درپیش ہوتی ہیں وہ نسمہ میں ہوتی ہیں۔ گوشت پوست سے مرکب خاکی جسم میں نہیں ہوتیں۔ البتہ نسمہ کے اندر موجود کسی بیماری یا پریشانی کا مظاہرہ جسم پر ہوتا ہے یعنی جسم دراصل ایک اسکرین ہے اور نسمہ فلم ہے۔ فلم میں سے اگر داغ دھبہ دور کر دیا جائے تو اسکرین پر تصویر واضح اور صاف نظر آتی ہے۔ بالفاظ دیگر اگر نسمہ کے اندر سے بیماری کو نکال دیا جائے تو جسم خود بخود صحت مند ہو جائے گا۔
شاہ ولی اللہ? نے اس بات کی بھی تشریح کی ہے کہ آدمی اطلاعات، انفارمیشن یا خیالات کا مجموعہ ہے۔ صحت مند خیالات پرسکون زندگی کا پیش خیمہ ہیں۔ اس کے برعکس اضمحلال، پریشانی، اعصابی کشاکش، دماغی کشمکش اور نت نئی بیماریاں خیالات میں پیچیدگی، پراگندگی اور تخریب کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں۔ ٹیلی پیتھی چونکہ انفارمیشن، خیالات یا اطلاع کو جاننے کا علم ہے اس لئے یہ علم سیکھ کر کوئی آدمی خود بھی الجھنوں اور پریشانیوں سے محفوظ رہتا ہے اور اللہ کی مخلوق کی خدمت کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔
کسی چیز سے فائدہ اٹھانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس چیز کے اندر کام کرنیوالے اوصاف، اس کی حقیقت اور اس کی ماہیت سے وقوف حاصل ہو۔ وقوف سے مراد یہ ہے کہ میں نہ صرف یہ کہ لہروں کے علم سے واقفیت ہو بلکہ ہم یہ بھی جانتے ہوں کہ لہریں منجمد نہیں ہوتیں اور متحرک ہیں اور ان کی ہر حرکت زندگی کے اندر کام کرنیوالا ایک تقاضہ ہے اور ان تقاضوں سے زندگی کے اجزائ مرتب ہوتے ہیں۔ ہر لہر اپنے اندر ایک وصف رکھتی ہے اور اس وصف کا نام ہی طاقت (فریکوینسی) رکھتے ہیں۔ کسی طاقت سے فائدہ اٹھانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اس طاقت کے استعمال سے واقف ہوں۔ اسی وقوف کو اللہ نے حکمت کا نام دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
“اور ہم نے لقمان کو حکمت دی کہ وہ اسے استعمال کرے اور جو لوگ اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ انہیں فائدہ پہنچتا ہے اور جو لوگ اس کا کفران کرتے ہیں وہ خسارے میں رہتے ہیں۔” سور? القمان – 12
قرآن پاک پوری نوع انسانی کے لئے منبع ہدایت ہے جو لوگ حکمت کے قانون میں تفکر کرتے ہیں اور اس کی ماہیت میں اپنی تمام ذہنی صلاحیتیں مرکوز کر دیتے ہیں ان کے اوپر طاقت کے استعمال کا قانون منکشف ہو جاتا ہے اور نئی سے نئی ایجادات مظاہر بن کر سامنے آتی رہتی ہیں۔ کبھی استعمال کا یہ قانون ایٹم بم بن جاتا ہے اور کبھی ریڈیو اور ٹی وی کے روپ میں جلوہ گر ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ایک ارشاد ہے “اور ہم نے لوہا نازل کیا اور اس کے اندر لوگوں کے لئے بے شمار فوائد رکھ دیئے۔”
غور و فکر کا تقاضہ ہے اور اپنی بے بضاعتی پر آنسو بہانے کا مقام ہے کہ موجودہ سائنس کی ہر ترقی میں لوہے کا وجود زیر بحث آتا ہے جن لوگوں نے لوہے کی خصوصیات اور اس کے اندر کام کرنیوالی لہروں کی طاقت کو تلاش کر لیا ان کے اوپر یہ راز منکشف ہو گیا کہ بلاشبہ لوہے میں نوع انسانی کے لئے بے شمار فوائد مضمر ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ ہم نے قرآن مجید کو محض ایصال ثواب اور حصول برکت کا ذریعہ بنا لیا ہے اور قرآن پاک میں تسخیر کائنات سے متعلق جو فارمولے بیان ہوئے ہیں ان کو ہم سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ جن لوگوں نے تسخیر کائنات سے متعلق فارمولوں کے رموز و نکات پر ریسرچ کی، اس کوشش میں اپنی زندگی کے ماہ و سال صرف کر دیئے انہیں اللہ تعالیٰ نے کامیابی عطا کی۔
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
718-753-9826 رابطہ مراقبہ ہال۔ نیو یارک
631-398-0848 رابطہ برائے روحانی ڈاک۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here