جاوید رانا، بیوروچیف شکاگو
قارئین کرام! یہ سطور جب لکھی جا رہی ہیں، 2019ءاپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے، پاکستان اور عالمی منظر نامے میں یہ سال جن حالات سے گزرا ہے وہ مختلف مدو جزر کا عکاس ہے۔ امریکہ، جس ملک میں ہم رہ رہے ہیں، اس میں جہاں ایک جانب امریکہ اور طالبان کے درمیان افغانسان میں قیام امن کیلئے مذاکرات کے مراحل طے ہوتے رہے ہیں، وہیں ڈونلڈ ٹرمپ کی متنازعہ فطرت کے باعث نوبت ایوان نمائندگان سے موصوف کے مواخذہ تک پہنچی ہے۔ برصغیر میں پاکستان کی خصوصی جغرافیائی اور اس کے پڑوس کے ممالک چین، بھارت، افغانستان، ایران کے حالات کی اہمیت بالخصوص عالمی تناظر میں بہت سے معاملات وطن عزیز کو درپیش ہیں۔ بھارت جو تشکیل پاکستان سے ہی پاکستان کے وجود کے درپے ہے، اپنی ناپاک و کریہہ حرکتوں سے پاکستان کےخلاف اقدامات کرتا رہتا ہے۔ RSS کے مسلم دشمن اور ہندوتوا کے پرچارک نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد سے تسلسل کےساتھ پاکستان مخالف حرکات و اقدامات جاری ہیں۔ طرح طرح کی دھمکیوں، زہر افشانی اور جھوٹے سچے فلیگ آپریشن کے دعوے کرنے والے بھارت کو منہ کی ہی کھانی پڑی ہے۔ 26 فروری کو لائن آف کنٹرول پر بھارتی حملے کے جواب میں پاکستان کے بھرپور اور منہ توڑ جواب، ابی نندن کی گرفتاری اور جھوٹے دعوﺅں کے باوجود شکست کے باعث مودی اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو دنیا بھر کی ذلت کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن ہندتوا کے یہ پجاری اپنی کینہ فطرت پر ڈٹے ہوئے ہیں اور ہندو ازم کے نفاذ کیلئے خود اپنے ملک میں اقلیتوں پر بالخصوص ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے RSS کے ہندوتوا کے ایجنڈے کے حوالے واضح طور پر بھارت کو اس نظرئیے کے باعث ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی پیش گوئی کی تھی اور بھارت کو ایک سیکولر ریاست قرار دیا تھا۔ پنڈت نہرو کا یہ خدشہ مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد حقیقت کا روپ دھار چکا ہے اور بابری مسجد کی شہادت، گجرات میں قتل عام سے شروع ہوئے واقعات سے ہندو گردی کا سلسلہ مقبوضہ کشمیر و لداخ کی خود مختاری کے خاتمے اور مقبوضہ کشمیر کو دنیا کا سب سے بڑا قید خانہ بنانے کے بعد اب نوبت شہریت کے قانون کے نفاذ اور اس کے رد عمل میں آسام، بنگال سے یوپی و دہلی تک لاکھوں افراد کے احتجاج، مظاہروں، اور بھارت کے سنجیدہ حلقوں و کانگریس اور دیگر سیاسی رہنماﺅں حتیٰ کہ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنر جی سمیت پورا بھارت مودی حکومت کے اس اقدام کی مذمت کر رہے ہیں۔ بھارت کی 20 سے زائد ریاستیں اس وقت آتش فشاں بنی ہوئی ہیں۔ اس احتجاج پر قابو پانے کیلئے مودی حکومت نے اپنے سارے وسائل جھونک دیئے ہیں۔ حتیٰ کہ ڈرونز کے استعمال سے بھی گریز نہیں کیا جبکہ RSS کے غنڈے پولیس اور دیگر اداروں کی وردی میں احتجاج کرنے والوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ اب تک 30 سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں، سینکڑوں کی تعداد زخمیوں کی ہے جبکہ ہزاروں افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ 5 اگست سے مقبوضہ کشمیر سے شروع ہونے والا ظلم و بربریت کا سلسلہ اب سارے بھارت میں پھیل چکا ہے، رسل و رسائل اور مواصلات کی پابندیوں کےساتھ بعض مقامات پر لوگوں کی آمد و رفت اور اشیائے ضرورت کا حصول بھی ناممکن ہو گیا ہے۔ اس کے باوجود احتجاج و ہنگاموں کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔
جنگی جنون اور پاکستان دشمنی میں ڈوبی ہوئی مودی سرکار اور اسٹیبلشمنٹ کا رویہ اس بات کا غماز رہا ہے کہ وہ اپنے ہر اندرونی معاملے اور خلفشار کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر گیدڑ بھبکیوں اور پاکستان کےخلاف جھوٹے سچے سرجیکل اسٹرائیکس و فلیگ آپریشن کے دعوﺅں پر اُتر آتا ہے، یہی سب کچھ وہ اس وقت بھی کرنے پر آمادہ نظر آرہا ہے۔ بھارتی آرمی چیف کے ہذیان کےساتھ ہی LOC پر سرحدی باڑ کو کاٹنے، اسپاٹک اور براموس میزائل کی تنصیب اور توپوں و ٹینکس کے سرحد پر لانے کا بھارتی عمل اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ اپنے اندرونی معاملے کی دنیا سے توجہ ہٹانے کےلئے کوئی بھی ناپسندیدہ پاکستان دشمن اقدام کر سکتا ہے جو خطہ میں امن و امان کی صورتحال بگڑنے کا سبب ہو سکتا ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کے تمام ریاستی، حکومتی اداروں نیز پوری قوم کو یکجا و متحد ہونے کی ضرورت اور دشمن کے ناپاک منصوبوں کو ناکام بنانے کیلئے ایک صفحہ پر ہونا ضروری ہے۔
بھارت کی یہ شر انگیزیاں پچھلے پانچ ماہ سے جاری ہیں۔ کشمیر میں مظلوم عوام پر ظلم و ستم اور کرفیو کی پابندیوں کو پانچ ماہ ہونے کو آئے ہیں، شہریت ایکٹ کا ہنگامہ بھی نومبر سے شروع ہو چکا تھا۔ اس تمام عرصے میں وطن عزیز میں جو واقعات و مظاہر رونما ہوتے رہے ہیں کیا وہ ہماری قومی یکجہتی کی تصویر نظر آتے ہیں۔ کشمیر کے ایشو پر جنرل اسمبلی میں مضبوط اور واضح بیانیہ اور چین و ملائیشیا و ترکی کے کشمیر کے حوالے سے یو این کی تاریخ میں پہلی بار بھارتی اقدام کی مذمت، 50 سال کے بعد سیکیورٹی کونسل میں مقبوضہ کشمیر کے حق خود ارادیت کے ایشو پر معاملے کی قرارداد کے بعد پاکستان میں حزب اختلاف کا منفی رویہ، ملا مارچ کا فساد اور حکومتی عناد کا اظہار، ملی یکجہتی کا منفی رویہ ہی نظر آیا۔ دکھ یہ ہے کہ اس تمام منظر نامے میں ہمارے میڈیا کا کردار بھی کچھ قابل تحسین نہیں رہا اور معاملات کو بڑھا چڑھا کر پیش کر کے جلتی پر تیل کا کام کیا جاتا رہا۔ نئے نئے بیانئے، دلائل اور تجزئیے دے کر یہ تاثر دیا جاتا رہا کہ یہ اداروں کے درمیان محاذ آرائی ہے۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع، وکلاءگردی کا واقعہ اور حال ہی میں پرویز مشرف کیس کا فیصلہ، غرض ہر معاملے میں جہاں مخالف سیاسی اشرافیہ نے اپنے منفی کردار کا مظاہرہ کیا ہے وہیں میڈیا کے کار پردازوں نے بھی ان معاملات کو اداروں کے درمیان عدم اتفاق اور اختلاف کا تاثر دےناپاکستان کے مفاد کے منافی قرار دینے کے علاوہ اور کیا کہا جائے، ہم نے اپنے پچھلے کالموں میں بار بار اس امر پر درخواست کی ہے کہ موجودہ خطہ کے حالات، خصوصاً بھارت کے پاکستان دشمن روئیے کے پیش نظر ہمیں اپنے ریاستی اداروں خصوصاً اسٹیبلشمنٹ کو ہدف نہیں بنانا چاہیے۔ بھارت کے موجودہ اندرونی حالات، اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیت کےخلاف نت نئے ہتھکنڈوں اور رد عمل کی صورت میں پاکستان اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کےخلاف ہرزہ سرائی اور جنگی جنون کو رد کرنے کیلئے ایسے اقدامات سے گریز کریں جو بھارت کے پاکستان مخالفت کے پروپیگنڈے کے حق میں نہ جائے۔ بھارت جو اپنے جن سنگھی اور ہندوتوا ایجنڈے اور اقلیتوں سے جبر و استبداد کی بناءپر دنیا بھر میں ذلیل و رسواءہو رہا ہے، اپنے عالمی تاثر پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے اور اپنے داخلی بحران کو پاکستان کی سازش قرار دینا چاہتا ہے لیکن ہمارے مختلف ادارے اور طبقات بشمول سیاسی اشرافیہ و میڈیا اس سچائی کو سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔
حالیہ تناظر میں جب بھارت میں کشمیر میں ظلم و بربریت کے طویل سلسلے کےساتھ شہری ایکٹ کے آسام میں نفاذ کے نتیجے میں پھوٹ پڑنے والے ہنگاموں کے عین وقت اور بھارت کی LOC پر باڑ اکھاڑے جانے، میزائلوں کی غصیب، سرحد پر فوج کی نفری بڑھانے اور ٹینک لانے کی سازش کے وقت پر ہی آرمی چیف کی توسیع اور پرویز مشرف کو سزائے موت کے فیصلوں سے ہمارے اہم ترین ریاستی ادارے پر کیا اثر پڑا ہے، اس پر کوئی دو رائے نہیں۔ پرویز مشرف کے فیصلے میں پیراگراف 66 میں معلقہ فاضل جج کے انسانیت، آئین و قانون اور مذہب کے مخالف جملوں پر جو بحران ونما ہونے جا رہا تھا، اسے آرمی چیف اور وزیراعظم کی ملاقات و مدبرانہ سوچ سے روک تو دیا گیا لیکن جج موصوف کا یہ رویہ ذاتی عناد ارو فوج کےخلاف سوچ کا مظہر نظر نہیں آتا اور وہ بھی ایسے وقت جب بھارت پاکستان کےخلاف پوری طرح صف آراءنظر آتا ہے اور اپنے داخلی بحران کو پاکستان کے سر منڈھنا چاہتا ہے۔ اس فیصلے پر بھارت کے رہنماﺅں اور میڈیا کا خوشیاں منانا اور فوج کو ہدف بنانا کسی سازش کا حصہ ہی لگتا ہے جس سے بھارت کو فائدہ ہو۔ ہمیں کہنا تو نہیں چاہیے کہ جج وقار سیٹھ یا ہماری عدلیہ کے کچھ لوگ اس کا حصہ بنے لیکن وقت اور حالات کے تناظر میں کہیں نہ کہیں دال میں کچھ کالا ہے۔ ہمارا میڈیا بھی حالات کو مہمیز دےنے میں کچھ پیچھے نہیں رہتا۔ یہ سارے معاملات تو اپنی جگہ کوالالمپور میں سربراہی کانفرنس میں عمران خان یا وزیر خارجہ کی عدم شرکت پر ترک صدر کے بیان کو بنیاد بناتے ہوئے پاکستان کے سعودی عرب، ترکی، ملائیشیا اور دیگر برادر اور ممالک سے تعلقات میں فرق کا سوال اٹھانا بھی حب الوطنی نہیں۔ ایسے میں ایک محب وطن پاکستانی کیا سوچ سکتاہے یہی کہ کہیں پاکستان کو کسی سازش کا حصہ تو نہیں بنایا جا رہا ہے۔ ہم پھر یہی عرض کرینگے کہ حالات کو سمجھیں اور تمام ادارے اور قوتیں اتحاد و یکجہتی اور حب الوطنی کا مظہر بنیں۔
٭٭٭