سید کاظم رضوی
مملکت پاک جو ایک خواب کی تعبیر کی شکل میں وجود میں آیا دو خوابوں کا ذکر ملتا ہے ایک وہ جو علامہ اقبال نے دیکھا اور دوسرا وہ جو قائد اعظم نے دیکھا اقبالؒ کے خواب کے چرچے تو پرا±نے ہیں لیکن جب قائد اعظمؒ کی وفات ہوئی تو انکے خواب کی بابت انکشاف ہوا جو کہ انکی وصیت کے مطابق عام نہ تھا لیکن اب عام ہوچکا کہ کس طرح ان کو قیام پاکستان کیلئے متواتر تین رات ایک ہی خواب کا آنا اور انکا انگلینڈ سے ھندوستان آکر تحریک آزادی کو چلانا جس کا نتیجہ دنیا میں مملکت پاک کے وجود کے نقشے کی شکل میں آیا۔ کچھ ایسے خواب جوکہ قائدین پاکستان نے دیکھے وہ پورے ہوچکے اور اسکے لیئے انکو مبارک باد لیکن یہ خواب اور انکی تعبیریں نئی نہیں ہیں بلکہ زمانہ قدیم سے قبل از اسلام بھی انکی مثال ملتی ہے حضرت یوسفؑ کا خواب دیکھنا اور قحط کے بارے میں بتانا جبکہ حضرت ابراھیمؑ کا خواب دیکھنااور پھر حضرت اسمعیٰلؑ کی عظیم قربانی جو آج بھی ارکان حج کا حصہ ہے اسکے بعد رسول اکرم صل اللہ علیہ وسلم کی وفات اور پھر عشرہ مبشرہ کے خواب وغیرہ۔ لوگ نیک ہوں خواب اور تعبیریں بھی نیک اور بر آنے والی جبکہ کچھ خواب ایسے جو انسان دیکھتا ہے اور اسکی تکمیل کی آرزو لئے امید پر زندگی گزارتا ہے اب مجھے نہیں معلوم اس کو خواب کیوں کہا گیا جبکہ یہ ایک خواہش یا خیال کا نام بھی ہوسکتا ہے مثلاً ایک ایسے ملک± کا قیام جہاں مسلمانوں کو اپنی مذھبی رسومات اور احکام خداوندی کے مطابق زندگی گزارنے کی آذادی ہو یہ ایک وجہ اور وہ نظریہ تھاجو قیام مملکت پاک کی آزادی کا سبب بنا اور تحریک آذادی اس ہی مقصد کے حصول کی خاطر بٹ کے رہے ھندوستان اور بن کے رہے گا پاکستان جیسے نعروں کی گونج میں مملکت معرض وجود میں آگیا۔ لیکن آج اس بہتر سالہ بزرگ ملک± و معاشرے میں جو طبقات وجود میں آئے ہمیشہ کی طرح اشرافیہ درمیانہ طبقہ اور غریب طبقہ ایک ایسا نظریاتی ملک± اور نظام جو اپنے مقاصد کی تکمیل میں پتہ نہیں کتنا کامیاب یا ناکام رہا اسکا جواب شائد خود ایک بڑا سوال بن چکا ہے جب آہستہ آہستہ احساس ہوا درمیانہ طبقہ اب اس ملک± میں پایا نہیں جاتا اب تو بس امیر و غریب دو طبقات پائے جاتے ہیں ان میں ایک وہ غریب جو خطِ غربت سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور ایک وہ امیر جو خط امارت سے بھی اونچے ہیں۔ معاشرتی اور مزھبی طور پر دیکھا جائے تو یہ عروج ہے یا زوال معلوم نہیں کیونکہ اب جو ہے اس کے نام کی تختی ہی مختلف ہے باقی مال اندر سب ایک سا ہی ہے !!
اس ملک± میں آجکل سب سے بڑا نعرہ بدعت ، پھر کفر اسکے بعد غداری اور چور اتنی بڑی تعداد آچ±کے ہیں کہ اب گستاخ اور منافق اسکی مختلف برانچیں و اقسام اپنی نت نئی تعریفوں اور لیبلز کے ساتھ کثرت سے مارکیٹ میں موجود ہیں !!!
اگر انکی ایکسپورٹ کی اجازت ہوتی تو دنیا میں ہم سے زیادہ امیر ملک کوئی نہ ہوتا !!۔۔۔ جاری ہے
٭٭٭